اشاعتیں

اگست, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے

آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے یوں ملنا ملانا مرا دستور نہیں ہے چپ چاپ اُسے دیکھتا ہوں غیر کے ہمراہ باتوں کو بڑھانا مرا دستور نہیں ہے پھرتا ہے پشیمان وہ خود روٹھ کر اب کے ہر بار منانا مرا دستور نہیں ہے مجبور نہ کر مجھ کو ترے دیس کو چھوڑوں پھر لوٹ کے آنا مرا دستور نہیں ہے سننے کا بہت شوق ہے اُن کو مرے ارمان پر خواب سنانا مرا دستور نہیں ہے ہو گا کہ یہ تکلیف دہی تیری نہج ہو اشکوں کا بہانا مرا دستور نہیں ہے مت ڈوبتی کشتی سے مجھے دیکھ مرے دل امید دلانا مرا دستور نہیں ہے مشتاق کوئی چارہ نوازی کا ہو فاتحؔ احسان اٹھانا مرا دستور نہیں ہے