اشاعتیں

فروری, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اب ہم کو بازارِ جہاں سے گم جانو

اب ہم کو بازارِ جہاں سے گم جانو کیا لینا ہے‘ کیا دینا ہے‘ تم جانو

حال جو دل کا سمجھ آئے کہا کرتے ہیں

حال جو دل کا سمجھ آئے کہا کرتے ہیں بس اِسی حال میں خوش حال رہا کرتے ہیں خواب ساحل کے کبھی آنکھ میں تیرے ہی نہیں بس جہاں موج بہاتی ہے‘ بہا کرتے ہیں دل شگافی نے عجب رنگ دکھایا ہے الفؔ چوٹ اوروں کو لگے‘ ہم ہی سہا کرتے ہیں

عدم سمونے میں لگ گیا ہے

عدم سمونے میں لگ گیا ہے وجود کھونے میں لگ گیا ہے جو ہے‘ نہ ہونے سا لگ رہا ہے نہ ہے جو‘ ہونے میں لگ گیا ہے وہ ناخدا ہوں جو اپنی کشتی کو خود ڈبونے میں لگ گیا ہے ابھی وہ ’میں‘ تک نہیں گیا تھا جو ’ہم‘ کو ڈھونے میں لگ گیا ہے منیبؔ مرکز پہ لوٹتے ہی یہ کون کونے میں لگ گیا ہے

شعلے ہی بتیوں میں مقدر تھے موم کے

شعلے ہی بتیوں میں مقدر تھے موم کے شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے جب تک نگاہ سامنے رکھی، تھے آفتاب دیکھا جو ایک بار پلٹ کر، تھے موم کے آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے منیب احمد 16 فروری 2018 لاہور

جس پہ آغاز کی تہمت ہے

جس پہ آغاز کی تہمت ہے‘ وہ انجام ہی ہے صبح بھی صبح کے جیسی ہے مگر شام ہی ہے کامیابی نے سدا مجھ کو کیا ہے بے چین گرچہ ناکام ہوں لیکن مجھے آرام ہی ہے مجھ کو لگتا ہے کوئی چیز نہیں ہے موجود جس کو موجود سمجھتے ہیں فقط نام ہی ہے کشف سے کم نہیں میں جانتا اپنی باتیں کوئی پوچھے تو میں کہتا ہوں کہ اِلہام ہی ہے چوک جائیں نہ مجھے دیکھ کے کیوں لوگ الفؔ میرا حلیہ بھی تو کچھ خاص نہیں‘ عام ہی ہے