اشاعتیں

جون, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے

نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے چمن پہ اور بھی آئے نکھار جانے دے کسے گمان کروں آشنائے حالِ خراب اگر نہ کوئی سرِ کوئے یار جانے دے لہو کو ننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے اے خستہ پائی سوئے خار زار جانے دے اُٹھا نہ پاؤں مرے سینۂ محبت سے مبادا جان دلِ بے قرار جانے دے سنا ہے دشت میں فاتحؔ تکے ہے تیری راہ اے شہر آرا وہاں کچھ غبار جانے دے

دنیا کے جب طلسم سے آزاد ہو گئے

دنیا کے جب طلسم سے آزاد ہو گئے ہم آپ اپنے جسم سے آزاد ہو گئے مجنون کہہ پکارتے پھرتے ہیں ان کو لوگ جو قید و بندِ اسم سے آزاد ہو گئے اِس مے کدے کے پیالے کبھی مشتِ خاک تھے حیرت ہے اپنی قسم سے آزاد ہو گئے

آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے

آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے پھول کے ہم دست کچھ آتے ہیں خار آزمائش وسعتِ داماں کی ہے کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک کشمکش پھر دوزخ و رضواں کی ہے ہے خدا کی حضرتِ انساں کو فکر اور اُس کو حضرتِ انساں کی ہے تیرے ہی پاؤں نے مسلا روئے گل سب عنایت گلشنِ امکاں کی ہے حکم ہے اگلے جہاں رکنے کا میمؔ پھر طلب تجھ سوختہ ساماں کی ہے