اشاعتیں

اگست, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اب ہم سے کوئی کام کیا بھی نہ جائے گا

اب ہم سے کوئی کام کیا بھی نہ جائے گا یعنی زیادہ دیر جیا بھی نہ جائے گا دامن دریدگی کا تو پھر بھی ہے کچھ علاج دل چاک ہو گیا تو سیا بھی نہ جائے گا ہر ایک نے حیات کو معنی دیے ہیں کچھ جیون کو ہم سے اَرتھ دیا بھی نہ جائے گا ہاتھوں میں اپنے زور نہیں اور جامِ عمر از دستِ دیگران پیا بھی نہ جائے گا کچھ مجھ کو بانٹنا نہیں آتا منیبؔ اور کچھ اُن سے میرا درد لیا بھی نہ جائے گا منیب احمد 29 اگست 2018 لاہور