اشاعتیں

2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چمن میں گرچہ گل و لالہ کی کمی ہے بہت

چمن میں گرچہ گل و لالہ کی کمی ہے بہت اُسے جو دیکھنا چاہیں اُنھیں یہی ہے بہت خزاں کا ڈر ہے کہ گل چیں کا ہے بتا بلبل کلی کلی کے لیے تجھ کو بے کلی ہے بہت گلے ملے ہیں ملائے ہیں ہاتھ آپس میں مگر ہے یوں کہ ہر اک شخص اجنبی ہے بہت وہ شعلہ رخ ہے مری چشم کے دریچوں میں ابھی دیے نہ جلاؤ کہ روشنی ہے بہت یہی بہت ہے اگر مرگ بے کراں ہو منیبؔ کہ زندگی تو ہماری نپی تلی ہے بہت

گریجویشن کا آخری سال

میں چپ‘ آخری سال بھی چپ ہے جی سی کا گھڑیال بھی چپ بسّیں بھی خاموش کھڑی ہیں اور بخاری ہال بھی چپ ایمفی خالی‘ کیفے بند اور مسجد کا مینار خموش گزٹ کے دفتر کی تختی پر ناموں کا انبار خموش ہرے سمندر میں اووَل کے رنگوں کی نیا چپ چپ گورے چہرے‘ کالی آنکھیں‘ پھول مہکتا سا چپ چپ شعبۂ اُردو کی دیواروں پر جمتی کائی خاموش کوئی منیب احمد تھا کبھی یاں بس بھائی‘ بھائی خاموش!

دیوانوں کی صورت میں ہر رہ سے گزر آیا

دیوانوں کی صورت میں ہر رہ سے گزر آیا عالم میں کوئی مجھ کو مجھ سا نہ نظر آیا دنیا ہے کہ زنداں ہے جس کو بھی یہاں دیکھو زنجیر بہ پا آیا اغلال بہ سر آیا اے قافلے والو تم جس گام پہ جا ٹھہرے اُس سے ہمیں آگے کا درپیش سفر آیا کیا جانیے کیسا ہے وہ خطۂ روپوشاں یاں سے تو گیا جو بھی لے کر نہ خبر آیا کنگال ہیں بے چارے یہ اہلِ زمیں سارے لینے کو خراجِ فن فاتحؔ تو کدھر آیا منیب احمد 2 ستمبر 2014 لاہور

ساون کے نام

یوں چھائی گھنگھور گھٹا ہر سو اندھیرا پھیل گیا قطرہ قطرہ بارش کا ڈرتے ڈرتے کود پڑا بجلی کڑکی دمن دمن کاگا کاگا کانپ اُڑا پیڑوں سے ٹکرائی ہوا پتا پتا جھوم پڑا مور لگے پھیلانے پر جنگل جنگل رنگ بھرا مٹی کی بھینی خوشبو نے گلیوں میں راج کیا مسکائی پیاسی کھیتی سوکھا کنواں جاگ اُٹھا کالی کالی گھٹاؤں کا گھٹتے گھٹتے زور گھٹا نیلی چھتری چیر کے پھر اِک جانب سورج نکلا دھنک دھنک پریاں اُتریں پربت پربت رقص ہوا سارا ساون آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے ڈوب گیا

راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟

راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟ شہرِ نگار چھوڑ کر چل دیے دل فگار کیوں؟ دشتِ دل و جگر میں ہے چشمۂ چشمِ تر میں ہے وسعتِ ریگ زار کیوں؟ مستیِ جوئے بار کیوں؟ موسمِ گل فرار میں تتلیاں اِنتشار میں عرصۂ روزگار میں اِتنا ہے اِختصار کیوں؟ آئنہ حسنِ یار سے پوچھے کبھی یہ کاشکے اہلِ نظر کے سامنے پردگی اِختیار کیوں؟ تجھ کو خبر ہے اے خدا کوئی بُرا ہے یا بھلا روزِ جزا میں پھر بتا اِس قدر اِنتظار کیوں؟ یومِ حساب کیا کہیں؟ بس میں ہو اُس سے پوچھ لیں دوسری دفعہ کیا جئیں؟ مر گئے پہلی بار کیوں؟ چشمِ صنم ہری ہری‘ دیکھ یہ سبز تُرمِری حسرتِ مرغزار کیوں؟ خواہشِ سبزہ زار کیوں؟ کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟ فصلِ خزاں ہے عنقریب جان لے گر یہ عندلیب میری طرح سے پھر منیبؔ ہو نہ وہ سوگوار کیوں؟

رخسار ترا مشعلِ سوزاں نظر آئے

رخسار ترا مشعلِ سوزاں نظر آئے چہرہ ترا مہتابِ درخشاں نظر آئے مکھڑا ترا روشن سا جواہر کی جھلک دے دندان ترا گوہرِ تاباں نظر آئے شارع جو بنائے تو کوئی دل تلک اپنے اُس راہ پہ ہر شخص خراماں نظر آئے دولت جو لگے بانٹنے تو حسن کی اپنے یہ درہم و دینار فراواں نظر آئے تصویر اُتارے جو تری زلفِ سیہ کی نقاش وہ کم بخت پریشاں نظر آئے شوخی سے اذاں تو کبھی دے جائے تو ہر ایک واللہ مساجد میں مسلماں نظر آئے اَسرار اگر تیرے تبسم کے بیاں ہوں تحقیق کہ یاں ہر کوئی حیراں نظر آئے تو دشت میں گر جا بسے، اے رونقِ عالم! دو روز میں ہر شہر بیاباں نظر آئے پڑ جائے کسی پر جو تری گردِ کفِ پا دنیا کو گداگر بھی وہ سلطاں نظر آئے جو دن کو نظارہ کرے تیرا قدوقامت اُس آنکھ کو خوابوں میں گلستاں نظر آئے اے مایۂ گم گشتہ و ناپید میں تجھ پر واروں دل و دیں گر تو مری جاں نظر آئے تھے وصل میں بکھرے ہوئے کچھ ٹوٹے ہوئے تھے جو خواب ہمیں ہجر کے دوراں نظر آئے ہم قیدِ قفس کے متمنی تو نہیں تھے کیا کیجے جو گلزار بھی زنداں نظر آئے درپردہ ہے گر حسن تو اعجاز ہی ک

فاتح کو یوں گریز ہے دنیا جہان سے

فاتح کو یوں گریز ہے دنیا جہان سے سوئے عدم ہی جائے گا اپنے مکان سے