اشاعتیں

اپریل, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سانس کا بندھن چھوٹ گیا تو کیا ہو گا

سانس کا بندھن چھوٹ گیا تو کیا ہو گا یہ دھاگا بھی ٹوٹ گیا تو کیا ہو گا میں نے جس میں بھوک چھپا کر رکھی ہے وہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا تو کیا ہو گا اے لڑکی یہ تیرے شوق پرانے ہیں مل یہ نیا بھی سوٹ گیا تو کیا ہو گا اپنے پاس سوائے تن من کچھ بھی نہیں وقت یہ دھن بھی لوٹ گیا تو کیا ہو گا جھوٹے شعر بنانے والی نگری میں بن میرا سچ جھوٹ گیا تو کیا ہو گا میرے فن کی نا پختہ سی گلیوں کو وقت کا پہیہ کوٹ گیا تو کیا ہو گا کاش کوئی یہ سوچتا کہ تاجر انگریز ہندستاں کو لوٹ گیا تو کیا ہو گا لوگ بہت ناراض ہیں مجھ سے ’میم الف‘ وہ پیارا بھی روٹھ گیا تو کیا ہو گا

میرؔ و اقبالؔ ہو نہ غالبؔ ہو

میرؔ و اقبالؔ ہو نہ غالبؔ ہو تم الگ چیز میمؔ صاحب ہو خود کلامی ہی کرتے رہتے ہو کبھی ہم سے بھی تو مخاطب ہے سب میں رہتے ہو سب سے بیگانے کچھ بتاؤ تو کس کی جانب ہو؟ غمِ دنیا نہ فکر عقبیٰ کی تم مسلمان ہو کہ راہب ہو؟ ساتھی تیرے ساتھ سے ہم پہ ظاہر ہے ساتھ نبھانا اپنے بس کی بات نہیں ہے سادہ سی اِک زندگی کو اُلجھا لیا ہے سہج بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے دوسروں کے میں کام تو کرتا ہوں لیکن کام کرانا اپنے بس کی بات نہیں ہے پیڑوں کے پھل کھانے کی حسرت تو ہے پیڑ ہلانا اپنے بس کی بات نہیں ہے آج سے میں بس شعر لکھوں گا کاغذ پر ویڈیو بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے شاعری کر کے ذہن بہت تھک جاتا ہے ہل یہ چلانا اپنے بس کی بات نہیں ہے

رائٹ برین بمقابلہ لیفٹ برین

تصویر
میں تو شاعر ہوں اِس لیے اکثر میرا سیدھا دماغ چلتا ہے تو بہت منطقی ہے سو ہر وقت تیرا اُلٹا دماغ چلتا ہے