اشاعتیں

جنوری, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی ہلانا لب ہے اپنا معجزہ بھی یہ جو بخشا گیا ہے شعر کا فن یہی نعمت یہی ہے اِبتلا بھی اگر اِتنی ہی جینے کی ہوس ہے تو اپنی ذات کا پتھر اٹھا بھی تو کیا قارون بنتا جا رہا ہے کمائی ہے اگر دولت لٹا بھی تو ہر انداز میں پیارا ہے ہم کو وفا چاہے کرے چاہے جفا بھی تو جب غصے سے ہم کو دیکھتا ہے کچھ اُس کے ساتھ میں ہو کر خفا بھی اگرچہ جان لے لیتی ہے لیکن ہمیں بھاتی ہے تیری یہ ادا بھی حقیقت ایک ہی کے نام ہیں یہ محبت بھی سکوں بھی اور خدا بھی تو اپنے بادباں تو کھول ملاح لگے گی چلنے دم بھر میں ہوا بھی بغاوت کے نہیں آثار ہوتے غلامی میں ہو جب شامل رضا بھی نہیں ہے عشق اُس سے تو الگ ہو جو اُس سے عشق ہے تو پھر نبھا بھی نہ تیرا ساتھ دیں گے وقتِ رحلت یہ تیرے بال بچے بھائی بھابھی ترے نقصان کا سوچے گا کوئی جگت کے بیچ تو سارے ہیں لابھی بہادر کے قدم کپتے نہیں ہیں اگرچہ بھے سے کپ جاتی ہے نابھی نہیں معلوم تو بہتر ہے چپ رہ اگر معلوم ہے تب کچھ بت