اشاعتیں

جنوری, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ہر اِک گام پر ہے نئی زندگی

نہ کر غم کہ کتنی گئی زندگی ہر اِک گام پر ہے نئی زندگی چپکتے ہیں اِس سے تو چھٹتے نہیں بڑی چپچپی ہے لئی زندگی کوئی اِس کو سمجھا نہیں آج تک خدا جانے کیا ہے بھئی زندگی نہ کچھ مرنے والوں کا غم کیجیے ہے اپریل موت اور مئی زندگی زمینِ غزل پر مکانات میؔم بناتے بناتے ڈھئی زندگی

میں اہم تھا ؍ یہی وہم تھا

تو سمجھتا ہے بہت تو اہم ہے بھول ہے تیری‘ یہ تیرا وہم ہے موت کا کیا سامنا کر پائے گا؟ جب گیا تو زندگی سے سہم ہے! ہڈّیوں کا ڈھیر ہی رہ جائے گا پہلواں! مانا تو کوہِ لحم ہے میری باتوں کو سمجھتے ہیں فہیم اُس قدر ہی جتنا اُن کا فہم ہے رونقِ بازارِ دنیا‘ سچ بتا! کیا ترے دل میں بھی گہما گہم ہے؟ عدل کا خواہاں نہیں ہوں ’میم الف‘ جس کا میں طالب ہوں‘ اُس کا رحم ہے