اشاعتیں

2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

عمر کی مسافت کا اختتام تو ہو گا

عمر کی مسافت کا اختتام تو ہو گا صبح شام تو ہو گی دن تمام تو ہو گا میں اگر جہاں میں ہوں تم اگر جہاں میں ہو کوئی وجہ تو ہو گی کوئی کام تو ہو گا تم جو دل کی مانو گے اپنی پیاس جانو گے رہ بری کا پھر حق سے اہتمام تو ہو گا گر طلب بھی صادق ہے اور عمل موافق ہے غیب سے اعانت کا انتظام تو ہو گا منیب احمد 16 دسمبر 2017 لاہور

شاید میں کچھ کر سکتا تھا

شاید میں کچھ کر سکتا تھا زخمِ تمنا بھر سکتا تھا خوف سے تھر تھر کانپنے والے! خوف بھی تجھ سے ڈر سکتا تھا اُس راہی نے منزل ماری جو رستے میں مر سکتا تھا اُس کی آنکھیں بول رہی تھیں جس کے ہونٹوں پر سکتا تھا در در دیتا ہوں آوازیں ورنہ چپ بھی گزر سکتا تھا منیب احمد 21 اکتوبر 2017 لاہور

جب تک بجاے اشک کے موتی نہ دیکھ لو

جب تک بجاے اشک کے موتی نہ دیکھ لو کچھ دیر رو کے ہم دمِ دیرینہ دیکھ لو اہرام مصر کے ہوں مقابر ہوں چین کے دل سا کہیں نہ پاؤ گے گنجینہ دیکھ لو سنتے ہی سنتے گزرے ہوؤں کی کہانیاں ہم بھی ہوئے ہیں قصۂ پارینہ دیکھ لو پانی میں عکس دیکھ لو رشکِ مسیح کا مہدی کو دیکھنا ہو تو آئینہ دیکھ لو ننگے تھے مفلسی میں پشیمان تو نہ تھے کتنے خجل ہو اوڑھ کے پشمینہ دیکھ لو مختار ہو دراز کرو دستِ دوستی آپس میں پال پال کے یا کینہ دیکھ لو سورج کو اپنے قلب کے بجھنے نہ دو منیبؔ تا آں کہ شامِ قالبِ خاکی نہ دیکھ لو منیب احمد 14 مارچ 2017 لاہور

مراد وجہِ الم ہے

مراد وجہِ الم ہے‘ کراہتے کیوں ہو؟! جو چاہیے ہی نہیں‘ اُس کو چاہتے کیوں ہو؟! ملاپ قلب کا ہوتا ہے‘ قالبوں کا نہیں فقط بدن کو بدن سے بیاہتے کیوں ہو؟! منیبؔ! ہونٹ بہت خشک ہیں لبِ راوی اب ایسے صحرا نما سے نباہتے کیوں ہو؟!

جہان بنتا عدن تو کیسے؟!

گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟ وہ سیم تن جب چمن میں آئے نظر میں آئے سمن تو کیسے؟ پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں غیروں کی جا کے لیکن جواز کیا ہے کہ بدگماں ہوں؟ رکھوں مگر حسنِ ظن تو کیسے؟ سمجھ رہے تھے زمین والے کہ خلد افلاک میں کہیں ہے بہشت اترتی زمیں پہ کیونکر؟ جہان بنتا عدن تو کیسے؟ تھی قلبِ انساں کی استطاعت کہ بن گیا حاملِ امانت بغیر رائی ہوئے اٹھاتے یہ بوجھ کوہ و دمن تو کیسے؟ خدا پرستی چلن ہے میرا تو بت تراشی بھی فن ہے میرا بتوں کو پوجوں تو کس بنا پر؟ بنوں اگر بت شکن تو کیسے؟ شریک اگرچہ ہوں کارواں میں مگر ٹھکانہ جدا ہے میرا جو بیچ صحرا رکوں تو کیونکر؟ پہنچنے پاؤں وطن تو کیسے؟ زبان سمجھیں نہ ہم زباں بھی‘ مگر سنانی ہے داستاں بھی جو دل میں رکھوں تو کس طرح سے؟ لبوں پہ لاؤں سخن تو کیسے؟ نہ میرا سقراط ہم پیالہ‘ نہ میرا منصور ہم نوالہ نثار ہوں جامِ سم کے کیونکر؟ ہوں نذرِ دار و رسن تو کیسے؟ نہ مر گیا ہوں‘ نہ جی اٹھا ہوں‘ نہ جاگتا ہوں‘ نہ سو رہا ہوں لباسِ ہستی کہاں اُتاروں؟ پھروں پہن کر کفن تو کیسے؟