اشاعتیں

جولائی, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ساون کے نام

یوں چھائی گھنگھور گھٹا ہر سو اندھیرا پھیل گیا قطرہ قطرہ بارش کا ڈرتے ڈرتے کود پڑا بجلی کڑکی دمن دمن کاگا کاگا کانپ اُڑا پیڑوں سے ٹکرائی ہوا پتا پتا جھوم پڑا مور لگے پھیلانے پر جنگل جنگل رنگ بھرا مٹی کی بھینی خوشبو نے گلیوں میں راج کیا مسکائی پیاسی کھیتی سوکھا کنواں جاگ اُٹھا کالی کالی گھٹاؤں کا گھٹتے گھٹتے زور گھٹا نیلی چھتری چیر کے پھر اِک جانب سورج نکلا دھنک دھنک پریاں اُتریں پربت پربت رقص ہوا سارا ساون آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے ڈوب گیا

راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟

راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟ شہرِ نگار چھوڑ کر چل دیے دل فگار کیوں؟ دشتِ دل و جگر میں ہے چشمۂ چشمِ تر میں ہے وسعتِ ریگ زار کیوں؟ مستیِ جوئے بار کیوں؟ موسمِ گل فرار میں تتلیاں اِنتشار میں عرصۂ روزگار میں اِتنا ہے اِختصار کیوں؟ آئنہ حسنِ یار سے پوچھے کبھی یہ کاشکے اہلِ نظر کے سامنے پردگی اِختیار کیوں؟ تجھ کو خبر ہے اے خدا کوئی بُرا ہے یا بھلا روزِ جزا میں پھر بتا اِس قدر اِنتظار کیوں؟ یومِ حساب کیا کہیں؟ بس میں ہو اُس سے پوچھ لیں دوسری دفعہ کیا جئیں؟ مر گئے پہلی بار کیوں؟ چشمِ صنم ہری ہری‘ دیکھ یہ سبز تُرمِری حسرتِ مرغزار کیوں؟ خواہشِ سبزہ زار کیوں؟ کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟ فصلِ خزاں ہے عنقریب جان لے گر یہ عندلیب میری طرح سے پھر منیبؔ ہو نہ وہ سوگوار کیوں؟