اشاعتیں

اکتوبر, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سوچتے کیا ہو؟

اگر یہ سوچ لیا ہے کہ کر دکھاؤ گے تو کر دکھاؤ مری جان! سوچتے کیا ہو؟ متاعِ دل کو لُٹانے کی تم نے ٹھانی ہے پھر اِس میں نفع ہو، نقصان، سوچتے کیا ہو؟ جو فاصلہ ہے نا، وہ فیصلے سے کٹتا ہے بنا چلے ہو پریشان، سوچتے کیا ہو؟ فرازِ کوہ پہ تم کو نگاہ رکھنی ہے عمیق کتنی ہے ڈھلوان، سوچتے کیا ہو؟ اتار دی ہیں اگر کشتیاں سمندر میں پھر آئے لہر کہ طوفان، سوچتے کیا ہو؟ ابھی تو حال ہے، ماضی نہیں، نہ مستقبل ابھی سے ہو گئے ہلکان، سوچتے کیا ہو؟ تمھیں تو منزلِ مقصود پر پہنچنا ہے سفر کٹھن ہے کہ آسان، سوچتے کیا ہو؟ منیب احمد 21 اکتوبر 2018 لاہور

دہر کو پانا ہے کھونے کی طرح

دہر کو پانا ہے کھونے کی طرح جاگنا بھی یاں ہے سونے کی طرح ایک ہونا ہے‘ نہ ہونے کی نظیر ایک نہ ہونا ہے‘ ہونے کی طرح ہاتھ جو آئے‘ وہ مٹی کی مثال جو نہ مل پائے‘ وہ سونے کی طرح دکھ میں رونا تو ہے رونا ہی مگر سکھ میں ہنسنا بھی ہے رونے کی طرح زندگی ہے لطف کا ساماں مگر جی رہے ہیں بوجھ ڈھونے کی طرح