اشاعتیں

2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دھوپ ہے دیوار کا سایا بھی ہے

دھوپ ہے دیوار کا سایا بھی ہے بیٹھنا تنہا ہمیں بھایا بھی ہے جس کے آگے منزلیں ہوتی نہیں دل ہمیں اُس گام تک لایا بھی ہے چھوڑتے ہرگز نہیں سنسار کو اور یہ کہتے ہیں سب مایا بھی ہے ڈھونڈنے والوں سے یہ پوچھے کوئی کیا کسی نے ڈھونڈ کر پایا بھی ہے؟ یوں تو سمجھایا سمجھ داروں نے خوب پر جو سمجھایا سمجھ آیا بھی ہے؟ زندگی ننگی کی ننگی ہے منیبؔ پیرہن معنی کا پہنایا بھی ہے منیب احمد 29 دسمبر 2018 لاہور

معنی کا گہر بحر کے اندر تو نہیں ہے

معنی کا گہر بحر کے اندر تو نہیں ہے کچھ سار بھی اِس دہر کے اندر تو نہیں ہے اب ڈوبنے والے بھی کئی ہاتھ ہیں لیکن تنکا سا کسی نہر کے اندر تو نہیں ہے ستھرائی صفا‘ چین سکوں‘ پیار محبت باہر ہو کہیں‘ شہر کے اندر تو نہیں ہے جو خوف میں جاں لینے کی لوگوں کی سکت ہے وہ تاب و تواں زہر کے اندر تو نہیں ہے جو سختی ترے قہر کے اندر ہے‘ اے قاہر! وہ نرمی ترے مہر کے اندر تو نہیں ہے دریا میں منیبؔ آپ نے جس لہر کو دیکھا دریا بھی اُسی لہر کے اندر تو نہیں ہے؟

شاید کہ انجمن میں سنے کوئی دردمند

شاید کہ انجمن میں سنے کوئی دردمند کہتا کبھی کبھی ہوں میں خلوت میں شعر چند تم کو اگر پسند ہیں تو دوست رکھ ہی لو مجھ کو مری لکھی ہوئی چیزیں نہیں پسند موزونیِ طبع سے میں اب شاعری کروں جانوں نہ کوئی ماترا‘ مانوں نہ کوئی چھند گاہک بنے گا کوئی بھی ایسی دکاں کا جو دو چار دن کھلی رہے‘ دو چار روز بند؟ مچھلی کی بو کو سونگھ کے پکڑی ہے تم نے ناک یہ بو بھی ماہی گیر سے پوچھو‘ ہے اِک سگندھ دانا کو کیا بتائیے؟ ناداں سے کہیے کیا؟ سنیے منیبؔ! چھوڑیے کرنا یہ وعظ و پند

لوٹ لے جتنی لوٹنی ہے دھوپ

لوٹ لے جتنی لوٹنی ہے دھوپ قبر کے بیچ چھوٹنی ہے دھوپ تو بہت سائباں بناتا ہے کیا ترے سر پہ ٹوٹنی ہے دھوپ؟ سورج اُگنے کا اِنتظار نہ کر تیرے سینے سے پھوٹنی ہے دھوپ جل بجھا آفتاب غصے سے اب تو جلدی ہی روٹھنی ہے دھوپ بس کہ صحرائے زندگی میں منیبؔ ریت ہے‘ میں ہوں‘ اونٹنی ہے‘ دھوپ

احسان مانتے ہیں نہ آداب جانتے ہیں

احسان مانتے ہیں نہ آداب جانتے ہیں اب بندے اپنے آپ کو ہی صاب جانتے ہیں تم بادشہ ہو حسن کے‘ ہم عشق کے شہنشہ دونوں ہی اپنے آپ کو نواب جانتے ہیں تم زندگی میں دیکھتے ہو خواب سو طرح کے پر ہم تو زندگی کو ہی اِک خواب جانتے ہیں پانچوں حواس کھوئے گئے جیسے پانچ دریا سو اپنے تن کو صوبۂ پنجاب جانتے ہیں ہم نیلے آسمان کے پنجرے میں قید پنچھی اپنے پروں میں سب پرِ سرخاب جانتے ہیں کم فائدے کو جانتے نقصان تم ہو لیکن نقصان کم ہو‘ اِس کو بھی ہم لابھ جانتے ہیں یوں تو وسیع حلقہ ہمیں جانتا ہے لیکن گہرائی میں منیبؔ کچھ احباب جانتے ہیں

میں تو کروں گا ویسا ہی

میں تو کروں گا ویسا ہی جیسا اچھا لگتا ہے رہنے دو کمرہ خالی ایسا اچھا لگتا ہے بیتا وقت برا بھی ہو کیسا اچھا لگتا ہے اب تو فقیروں کو صاحب پیسا اچھا لگتا ہے مے کش کو انگور بھی کچھ مے سا اچھا لگتا ہے جیسا بھی ہو حال منیبؔ ویسا اچھا لگتا ہے منیب احمد 24 نومبر 2018 لاہور

دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور

دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور کچھ اور ہی کہتے ہیں وہ جب کہتے ہیں کچھ اور اِتنا ہی تو کہتے ہیں کہ تو دل کی سنا کر اے جان مری ہم تجھے کب کہتے ہیں کچھ اور اندر سے تو کیا ٹکڑوں میں دو ٹوٹ گیا ہے آنکھیں تری کچھ کہتی ہیں لب کہتے ہیں کچھ اور ہر روز تو کہتا ہے کہ ہوں آج بہت خوش انداز یہ اطوار یہ ڈھب کہتے ہیں کچھ اور کہتے ہیں سدا آپ منیبؔ اوروں کو اچھا پر آپ کے بارے میں تو سب کہتے ہیں کچھ اور منیب احمد 21 نومبر 2018 لاہور

حالات ہو گئے ہیں کتنے عجیب صاحب

حالات ہو گئے ہیں کتنے عجیب صاحب دھن کے امیر بھی ہیں من کے غریب صاحب عیسیٰ کا تذکرہ بھی ہم نے سنا تھا لیکن دیکھی یہاں سبھی کے سر پر صلیب صاحب مکے مدینے پہنچے یا کربلا گئے ہم لیکن کبھی نہ آئے اپنے قریب صاحب اپنے نصیب پر جو خوش ہے بقولِ واصفؔ وہ آدمی یقیناً ہے خوش نصیب صاحب سر پر ہے سبز پگڑی‘ باتیں رٹی رٹائی توتا ہی لگ رہے ہیں بالکل خطیب صاحب کس کو حبیب کہیے؟ کس کو رقیب کہیے؟ ہم کو تو ایک سے ہیں دونوں منیبؔ صاحب

گرتے پڑتے ہیں چلتے جاتے ہیں

گرتے پڑتے ہیں‘ چلتے جاتے ہیں تن بدن سے نکلتے جاتے ہیں جلتے جاتے ہیں بتیاں بن کر موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں سنگ بن کر ندی میں ٹھہرے تھے موج بن کر اچھلتے جاتے ہیں چڑھتے جاتے ہیں زندگی کا پہاڑ ساتھ کے ساتھ ڈھلتے جاتے ہیں پانی دیتے ہیں پھول گل کے لیے ساتھ کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں خاک کو منھ بھی کیا دکھائیں گے خاک ہی منھ پہ ملتے جاتے ہیں

دل میں چنگاریاں نہیں ملتیں

دل میں چنگاریاں نہیں ملتیں آنکھ میں بجلیاں نہیں ملتیں حالِ دل اب بھی لوگ لکھتے ہیں خوں چکاں انگلیاں نہیں ملتیں گھر ہوا دار مل تو جاتے ہیں پر کھلی کھڑکیاں نہیں ملتیں خوبیوں پر اگر نظر رکھو پھر کہیں خامیاں نہیں ملتیں وہ نہیں کامیابیاں پاتے جن کو ناکامیاں نہیں ملتیں وہ نہیں ساتھ ساتھ چل سکتے جن کی دل چسپیاں نہیں ملتیں مشکلیں اُن کو سہل لگتی ہیں جن کو آسانیاں نہیں ملتیں دل کا دروازہ ہو گیا ہے بند گم شدہ چابیاں نہیں ملتیں قبر پر گھاس رہ گئی ہے منیبؔ پھول کی پتیاں نہیں ملتیں منیب احمد 15 نومبر 2018 لاہور

سوچتے کیا ہو؟

اگر یہ سوچ لیا ہے کہ کر دکھاؤ گے تو کر دکھاؤ مری جان! سوچتے کیا ہو؟ متاعِ دل کو لُٹانے کی تم نے ٹھانی ہے پھر اِس میں نفع ہو، نقصان، سوچتے کیا ہو؟ جو فاصلہ ہے نا، وہ فیصلے سے کٹتا ہے بنا چلے ہو پریشان، سوچتے کیا ہو؟ فرازِ کوہ پہ تم کو نگاہ رکھنی ہے عمیق کتنی ہے ڈھلوان، سوچتے کیا ہو؟ اتار دی ہیں اگر کشتیاں سمندر میں پھر آئے لہر کہ طوفان، سوچتے کیا ہو؟ ابھی تو حال ہے، ماضی نہیں، نہ مستقبل ابھی سے ہو گئے ہلکان، سوچتے کیا ہو؟ تمھیں تو منزلِ مقصود پر پہنچنا ہے سفر کٹھن ہے کہ آسان، سوچتے کیا ہو؟ منیب احمد 21 اکتوبر 2018 لاہور

دہر کو پانا ہے کھونے کی طرح

دہر کو پانا ہے کھونے کی طرح جاگنا بھی یاں ہے سونے کی طرح ایک ہونا ہے‘ نہ ہونے کی نظیر ایک نہ ہونا ہے‘ ہونے کی طرح ہاتھ جو آئے‘ وہ مٹی کی مثال جو نہ مل پائے‘ وہ سونے کی طرح دکھ میں رونا تو ہے رونا ہی مگر سکھ میں ہنسنا بھی ہے رونے کی طرح زندگی ہے لطف کا ساماں مگر جی رہے ہیں بوجھ ڈھونے کی طرح

نیکی و بدی ایک ہی سکے کے ہیں دو رخ

نیکی و بدی ایک ہی سکے کے ہیں دو رخ رابن ۱ کی طرح ٹھگ کوئی ٹھگنا بھی تو چاہے سورج کی طرح سب کو چمکنے کی ہے خواہش سورج کی طرح کوئی سلگنا بھی تو چاہے کتنا نہیں چاہا کہ لگائیں کہیں دل کو یہ جان کا لاگو کہیں لگنا بھی تو چاہے ۱  رابن ہڈ Robin Hood

درد تھا وقتی مسلسل ہو گیا

درد تھا وقتی مسلسل ہو گیا صاحبو! میں آج یا کل ہو گیا وہ تھا اِک سورج جو گرماتا رہا میں تھا اِک قطرہ جو بادل ہو گیا وہ تھا اِک ساحل‘ میں پتلا لون کا یوں ہوا جل تھل کہ میں حل ہو گیا میں نے یہ چاہا کہ پہنچوں اُس تلک اور اپنے سے بھی پیدل ہو گیا میں نے یہ جانا تھا لگ جائے گی دیر راستہ جلدی مکمل ہو گیا پاگلوں پہ میں بھی ہنستا تھا کبھی ہنستے ہنستے خود بھی پاگل ہو گیا مت کرو فکرِ دوائے دردِ دل ہو گیا میں جتنا گھائل ہو گیا رنگ لائی صحبتِ اہلِ صفا ہوتے ہوتے میں بھی نِرمل ہو گیا ضبط نے اِظہار کو جکڑا بہت کچھ بیاں پھر بھی مفصل ہو گیا

ڈائری کا پہلا اور آخری صفحہ

رات کے دس بج رہے ہیں اور میرا بڑا دل کر رہا ہے کہ کچھ لکھوں۔ ویسے تو میں نے آج تک کچھ کم نہیں لکھا۔ کئی دفتر سیاہ کیے ہیں شاعری اور زباندانی کے شوق میں۔ لیکن پھر بھی دل نہیں بھرا۔ جی چاہتا ہے مزید کھل کر لکھوں۔ بغیر ردیف اور قافیے کی پابندی کے۔ بغیر بحروں کی قید کے۔ آزادانہ! بےباکانہ! لیکن لکھوں کس بارے؟ میں کس بارے میں جانتا ہوں؟ شاعری؟ زبان و ادب؟ فلسفہ؟ زندگی؟ موت؟ نہیں! ضروری تو نہیں اسی بارے میں لکھوں جسے میں جانتا ہوں۔ کیوں نہ اس بارے میں لکھوں جسے میں نہیں جانتا۔ ایسا کیا ہے جسے میں نہیں جانتا؟ میں اپنے آپ کو نہیں جانتا! چلو، پھر اپنے بارے میں ہی لکھتا ہوں۔ لیکن اپنے بارے میں کس بارے لکھوں؟ میری سوچ، میری عادتیں، میرے خیالات، میرا گھربار ۔۔ نہیں! اتنا میرا میرا میں نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے میرے میں دلچسپی نہیں، نہ تیرے میں ہے۔ میرے تیرے کے پار کہیں جانے کا دل کرتا ہے۔ جہاں نہ میں، نہ تو! نہ آج، نہ کل! نہ رات، نہ دن! نہ دھوپ، نہ چھاؤں! ایسی جگہ کون سی ہے؟ کون جانے؟ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ اپنے ک

ہو سکتا ہے

ہو سکتا ہے تم روز کو بھی رات سمجھ لو ہو سکتا ہے تم رات کو بھی رات نہ جانو ہو سکتا ہے تم بات کے الفاظ پکڑ لو الفاظ کے پردے میں کہی بات نہ جانو ہو سکتا ہے تم گردشِ حالات کو دیکھو ہو سکتا ہے تم باعثِ حالات نہ جانو ہو سکتا ہے تم حاملِ تورات ہو لیکن ہو سکتا ہے تم معنیِ تورات نہ جانو ہو سکتا ہے تم ذاتِ خدا پر کرو بحثیں ہو سکتا ہے تم آدمی کی ذات نہ جانو منیب احمد 3 ستمبر 2018 لاہور

پرواز کرنی ہے مجھے

زندگانی صورتِ شہباز کرنی ہے مجھے گھر نہیں کرنا‘ فقط پرواز کرنی ہے مجھے

اب ہم سے کوئی کام کیا بھی نہ جائے گا

اب ہم سے کوئی کام کیا بھی نہ جائے گا یعنی زیادہ دیر جیا بھی نہ جائے گا دامن دریدگی کا تو پھر بھی ہے کچھ علاج دل چاک ہو گیا تو سیا بھی نہ جائے گا ہر ایک نے حیات کو معنی دیے ہیں کچھ جیون کو ہم سے اَرتھ دیا بھی نہ جائے گا ہاتھوں میں اپنے زور نہیں اور جامِ عمر از دستِ دیگران پیا بھی نہ جائے گا کچھ مجھ کو بانٹنا نہیں آتا منیبؔ اور کچھ اُن سے میرا درد لیا بھی نہ جائے گا منیب احمد 29 اگست 2018 لاہور

کر رہے ہیں سب کسی کی اقتدا

کر رہے ہیں سب کسی کی اقتدا تم کرو اپنے سفر کی ابتدا

مردانِ حر

منیب: میں نے جب اِس پہ غور کیا تو یہ سمجھا کہ جو آدمی ہے نا، وہ اپنی ذات میں آزاد نہیں ہے۔ اکبر: صحیح! منیب: پیدا ہوتے ہی نا، اُس کے اوپر قیدیں ہیں۔ اکبر: لمیٹیشنز (limitations) ہیں۔ منیب: ہاں، معاشرے کی قیدیں! ذمہ داریاں! کہ یار تو نے یہ یہ کرنا ہے۔ اکبر: صحیح! منیب: اُس کرنے کے چکر میں وہ ایسا پھنستا ہے کہ اُس سے نکل ہی نہیں پاتا۔ پچاس سال عمر ہو جاتی ہے، ساٹھ ستر سال، زندگیوں کی زندگیاں لگ جاتی ہیں۔ اکبر: ایسے ہی ہے! منیب: پھر حل کیا ہے؟ حل کیسے ہو سکتا ہے؟ میں یہ سمجھا ہوں کہ جب تک اُس فرد کو نظر نہ دے دی جائے، اُسے وژن (vision) نہ دے دیا جائے کہ بھئی تو نے نظر کدھر رکھنی ہے؟ اکبر: صحیح! منیب: میں نے آج تک جتنے دوستوں سے بات کی، ہمسایوں سے بات کی، سب نے کہا کہ یار! میں نے تو یہ یہ کرنا ہے، یہ یہ جاب (job) کرنی ہے۔ سب جو لگے بندھے ہیں نا، سماج کے، ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، سب لگی بندھی سوچ وہی ہے۔ نظر نہیں ہے! ان کے پاس وژن نہیں ہے۔ انھیں جو ملا ہے، وہ اُسی میں

ناز برداریوں میں کچھ بھی نہیں

ناز برداریوں میں کچھ بھی نہیں دوست! اِن یاریوں میں کچھ بھی نہیں تو ہے گر رمزِ دل سے نا واقف تیری دل داریوں میں کچھ بھی نہیں اور ہی کوئی منتظم ہے یہاں تیری تیاریوں میں کچھ بھی نہیں گرد ہی گرد ہے کتابوں کی اور الماریوں میں کچھ بھی نہیں مرد ہونے کی آرزو کے سوا اور اب ناریوں میں کچھ بھی نہیں ایک مہلت ہے تن درستی کی ورنہ بیماریوں میں کچھ بھی نہیں عالمِ غیب اگر نہیں ہے الفؔ عیب سنساریوں میں کچھ بھی نہیں منیب احمد 15 اپریل 2018 لاہور

سوچ رہا ہوں

سوچ رہا ہوں سوچنے والا کون ہے مجھ میں؟ کیا میں ہوں؟ یا میرا بھیجا؟ میری آنتیں؟ میرا معدہ؟ میرا سینہ؟ میرے اعضا؟ اعضاے رئیسہ؟ دل اِک عضوِ رئیس ہے کیا؟ عضوِ رئیس فقیر ہے کیا؟ سوچ رہا ہوں سوچ کا محور سوچ سے لے کر سوچ تلک ہے اکمل زیدی میرے بھائی سوچ کو لے کر الجھ گئے ہیں پوچھ رہے ہیں سوچ اور خیال خیال اور سوچ سوچ اور دل دل اور سوچ اَنتر کیا ہے اِن تینوں میں؟ میں سوچیلا! میں پھرتیلا! جھٹ سے پہلے پہنچ گیا ہوں اُتّر دینے میں تو پنڈت گیانی ہوں نا میں تو گیانی دھیانی ہوں نا میں تو عالم فاضل ہوں نا میں تو فاضل عاقل ہوں نا لیکن سچ میں جاہل ہوں نا! سوچ رہا ہوں سوچ کے پیچھے سوچ آتی ہے سوچ کے آگے کیا آتا ہے؟ کیا ایسی منزل ہے کوئی جس پہ سب سوچیں رک جائیں یا سوچوں میں ہم کھو جائیں؟ لیکن ہم تو کھوئے ہوئے ہیں پہلے ہی سے جو کھویا ہو کیسے کھوئے؟  کہتے ہیں کہ بھٹکتا وہ ہے جس نے کہیں جانا ہوتا ہے ہم نے کہاں جانا ہے بھائی؟ بنشین مادر، بیٹھ ری مائی! سوچ رہا ہوں اُس لڑکی سے پیار جتا کر غلطی کی ہے اب وہ میرے پیچھے پڑی ہے وہ کہتی ہے بیاہ رچاؤ! مجھ کو اپنے گھر میں لاؤ بچے پالو! سوچ رہا ہوں اِتنے پیسے کہاں سے لاؤں

جیسا تو ویسا ہر ایک

نہ کوئی بد ہے‘ نہ کوئی نیک جیسا تو ویسا ہر ایک

تیری نیت بھی ہے کیا میرا ارادہ بھی ہے کیا

تیری نیت بھی ہے کیا میرا اِرادہ بھی ہے کیا اپنی قسمت میں تغافل سے زیادہ بھی ہے کیا کوئی رہ داں ہو خضر سا تو میں اُس سے پوچھوں وہ جو منزل پہ ملے گا سرِ جادہ بھی ہے کیا؟ سب کے ہاتھوں میں گدائی کا ہی کاسہ ہے منیبؔ دست بستہ بھی ہے کیا دست کشادہ بھی ہے کیا

اب ہم کو بازارِ جہاں سے گم جانو

اب ہم کو بازارِ جہاں سے گم جانو کیا لینا ہے‘ کیا دینا ہے‘ تم جانو

حال جو دل کا سمجھ آئے کہا کرتے ہیں

حال جو دل کا سمجھ آئے کہا کرتے ہیں بس اِسی حال میں خوش حال رہا کرتے ہیں خواب ساحل کے کبھی آنکھ میں تیرے ہی نہیں بس جہاں موج بہاتی ہے‘ بہا کرتے ہیں دل شگافی نے عجب رنگ دکھایا ہے الفؔ چوٹ اوروں کو لگے‘ ہم ہی سہا کرتے ہیں

عدم سمونے میں لگ گیا ہے

عدم سمونے میں لگ گیا ہے وجود کھونے میں لگ گیا ہے جو ہے‘ نہ ہونے سا لگ رہا ہے نہ ہے جو‘ ہونے میں لگ گیا ہے وہ ناخدا ہوں جو اپنی کشتی کو خود ڈبونے میں لگ گیا ہے ابھی وہ ’میں‘ تک نہیں گیا تھا جو ’ہم‘ کو ڈھونے میں لگ گیا ہے منیبؔ مرکز پہ لوٹتے ہی یہ کون کونے میں لگ گیا ہے

شعلے ہی بتیوں میں مقدر تھے موم کے

شعلے ہی بتیوں میں مقدر تھے موم کے شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے جب تک نگاہ سامنے رکھی، تھے آفتاب دیکھا جو ایک بار پلٹ کر، تھے موم کے آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے منیب احمد 16 فروری 2018 لاہور

جس پہ آغاز کی تہمت ہے

جس پہ آغاز کی تہمت ہے‘ وہ انجام ہی ہے صبح بھی صبح کے جیسی ہے مگر شام ہی ہے کامیابی نے سدا مجھ کو کیا ہے بے چین گرچہ ناکام ہوں لیکن مجھے آرام ہی ہے مجھ کو لگتا ہے کوئی چیز نہیں ہے موجود جس کو موجود سمجھتے ہیں فقط نام ہی ہے کشف سے کم نہیں میں جانتا اپنی باتیں کوئی پوچھے تو میں کہتا ہوں کہ اِلہام ہی ہے چوک جائیں نہ مجھے دیکھ کے کیوں لوگ الفؔ میرا حلیہ بھی تو کچھ خاص نہیں‘ عام ہی ہے