مردانِ حر

منیب: میں نے جب اِس پہ غور کیا تو یہ سمجھا کہ جو آدمی ہے نا، وہ اپنی ذات میں آزاد نہیں ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: پیدا ہوتے ہی نا، اُس کے اوپر قیدیں ہیں۔

اکبر: لمیٹیشنز (limitations) ہیں۔

منیب: ہاں، معاشرے کی قیدیں! ذمہ داریاں! کہ یار تو نے یہ یہ کرنا ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: اُس کرنے کے چکر میں وہ ایسا پھنستا ہے کہ اُس سے نکل ہی نہیں پاتا۔ پچاس سال عمر ہو جاتی ہے، ساٹھ ستر سال، زندگیوں کی زندگیاں لگ جاتی ہیں۔

اکبر: ایسے ہی ہے!

منیب: پھر حل کیا ہے؟ حل کیسے ہو سکتا ہے؟

میں یہ سمجھا ہوں کہ جب تک اُس فرد کو نظر نہ دے دی جائے، اُسے وژن (vision) نہ دے دیا جائے کہ بھئی تو نے نظر کدھر رکھنی ہے؟

اکبر: صحیح!

منیب: میں نے آج تک جتنے دوستوں سے بات کی، ہمسایوں سے بات کی، سب نے کہا کہ یار! میں نے تو یہ یہ کرنا ہے، یہ یہ جاب (job) کرنی ہے۔ سب جو لگے بندھے ہیں نا، سماج کے، ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، سب لگی بندھی سوچ وہی ہے۔ نظر نہیں ہے! ان کے پاس وژن نہیں ہے۔ انھیں جو ملا ہے، وہ اُسی میں لگ جائیں گے۔

ابھی یہ میرا ہمسایہ ہے۔ جاب کی ہے اُس نے، اُدھر شادی کی ہے، ابھی دیکھیں دو سال بعد بچے ہوں گے، پھر اُن کے چکر میں لگے گا اور اُس کے جو والد صاحب ہیں، وہ بھی اکثر ملتے ہیں، اُنھیں بھی ڈپریشن ہے کہ یار! میری جاب نہ چھوٹ جائے، جاب چلی گئی تو پھر کیا کروں گا؟ تو میں سمجھتا ہوں یہاں پہ جو فرد ہے نا، وہ اپنی نظر یا تو خود پیدا کر سکے، یا اُسے کوئی نظر دینے والا مل جائے کہ یار! تیرا ہدف کیا ہے؟ تیرا نصب العین کیا ہے؟ تو نے کرنا کیا ہے؟

اکبر: صحیح!

منیب: اب دیکھیں، کل آپ نے فون کیا۔ آپ نے کہا کہ یار! پیسے ہونے چاہییں تا کہ معاشی مسائل حل ہو جائیں۔ میں نے آپ سے کہا کہ اکبر صاحب! ایک پریشانی ہوتی ہے جب پیسے نہ ہوں، ایک پریشانی ہوتی ہے جب پیسے آ جاتے ہیں۔

اکبر: ایسے ہی ہے!

منیب: جب پیسے آ جائیں گے تو پھر کیا کرو گے؟

اب جب ہے وہ بندہ قیدی۔ قیدی کو آپ پیسے بھی دے دیں نا تو اُس کی سوچ نہیں بدلے گی، وہ اُن پیسوں کو مزید زنجیریں خریدنے میں لگائے گا۔

اکبر: صحیح!

منیب: ایک قیدی کو اگر آپ پیسے دیں جس نے پہلے ہی زنجیریں پہنی ہوئی ہیں، لوہے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، آپ اُسے لاکھ، دو لاکھ دیں، پھر وہ سونے کی زنجیریں پہن لے گا۔ زنجیریں نہیں چھوٹیں گی!

اکبر: ایسے ہی ہے!

منیب: ایسی صورتِ حال میں آپ یقین کریں کہ اُس فرد کو یہ نظر آ جائے کہ باہر سے ساری قیدیں آ رہی ہیں۔ عدلیہ کی، معاش کی، سیاست دان کی، یہ سب قیدیں ہیں۔

اب جیسے ہی اُس شخص کو نظر آنے لگے گا کہ میں نے قید میں نہیں آنا جسے مردِ حر کہتے ہیں، اور مردِ حر ہیں۔ اِس معاشرے میں بھی ہیں۔ یہ خوبصورتی ہے۔ الطاف حسین حالیؒ کا ایک شعر ہے،

عالمِ آزادگاں ہے اک جہاں سب سے الگ
ہے زمین ان کی اور ان کا آسماں سب سے الگ

منیب: عالمِ آزادگاں! یہ جو آزادگاں ہیں نا، انھیں مردانِ حر بھی کہتے ہیں۔

میں نے دیکھا ہے کہ اکبر صاحب! جب تک کوئی مردِ حر نہیں بن جائے گا، مردِ حر کو آپ اِس معاشرے میں رہتے ہوئے بھی جیلوں میں ڈال دیں، وہ آزاد ہے۔

اکبر: ہاں، وہ آزاد ہے۔

منیب: اب کیسے آزاد ہے؟ دو بندے ہیں۔ ایک اِسی معاشرے میں رہتے ہوئے قید ہے، ایک اِسی معاشرے میں رہتے ہوئے آزاد ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ آزادی کہیں اور سے آ رہی ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: آزادی کسی گہری جگہ سے آ رہی ہے۔ آزادی جسم سے نہیں آ رہی۔ آزادی ہم کہہ سکتے ہیں روح سے آ رہی ہے؟ آزادی نفس سے آ رہی ہے؟ نظر سے آ رہی ہے؟

تو پتہ یہ چلا کہ آپ کیسی ہی پابندیوں اور زنجیروں میں جکڑے جائیں، ایک تَل، ایک level آپ میں ہے جو آزادی کو محسوس کر سکتا ہے۔ صرف کرنا کیا ہے کہ اُس آزاد حصے سے ملنا ہے۔

ابھی آپ بیٹھیں ہیں نا، میں نے آپ سے پوچھا کہ اکبر صاحب! آپ کیا چاہ رہے ہیں؟ آپ تھکے ہوئے آئے تھے۔ آپ نے کہا کہ یار! میں سونا چاہ رہا ہوں، آرام کرنا چاہ رہا ہوں۔ میں نے کہا اکبر صاحب! واقعی آپ سونا چاہ رہے ہیں؟ میں نے کہا شاید آپ کا جسم تھکا ہوا ہے اور شاید کوئی ایک گہری چیز بھی ہے جو بیدار ہونا چاہ رہی ہے۔ آپ نے کہا کہ ہاں، یار! ایک بیداری بھی چاہ رہی ہے۔

تو سب سے پہلے آپ اپنے کو جان لیں کہ یار! ہماری حقیقت کیا ہے؟ جسے عرفانِ ذات کہتے ہیں، ادراکِ ذات کہتے ہیں، عرفانِ نفس کہتے ہیں۔ جب تک کوئی اپنی شناخت اُس جگہ سے نہیں لے لیتا جو اُس کی اصل ہے۔۔۔

یعنی اصل شناخت لینا یہ پہلا قدم ہے اپنی آزادی کی طرف۔ پھر لاکھ پابندیاں ہوں، پھر لاکھ جکڑبندیاں ہوں۔۔۔

ہندواِزم میں نا اِسے کہتے ہی سنسار ہیں۔ اِس دنیا کو۔ ہمارے ہاں تو لفظ دنیا ہے جو عربی ہے۔ ہندو نے اِسے سنسار کہا ہے اور سنسار کا مطلب ہوتا ہے پہیہ، ایک چکر۔ یہ سنسار ہے ہی چکر۔ یہاں پہ چھوٹے چھوٹے چکر ہیں۔ گھر داری کے، بیوی بچوں کے، ملازمتوں کے۔

اول تو جس طرح میں نے بات کی کہ وہ آنکھ ہی نہیں ہے کہ چکر کو دیکھ ہی لیں کہ میں ایک چکر میں ہوں۔ جب تک اُسے پتہ ہی نہیں کہ میں زنجیروں میں ہوں تو زنجیریں اُتارنے کی خواہش کہاں سے آئے گی؟

اکبر: صحیح!

منیب: اب اکبر صاحب! میں اِس سب کو دیکھنے کے بعد اِس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ سب سے پہلے ضرورت یہ ہے، جس طرح آپ نے کہا، تعلیم کی۔ لیکن تعلیم سے میری مراد یہ تعلیم نہیں ہے جو سکولوں کالجوں میں دی جا رہی ہے۔

اکبر: نہیں، نہیں، تعلیم وہ ہونی چاہیے جو بندے کو آزاد کرے۔

منیب: آزاد کرے!

جیسے اقبالؒ نے کہا ہے نا کہ اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک اور نہ مدرسے میں ہے باقی، نہ خانقاہ میں ہے۔

اب ہماری جو ایجوکیشن ہے نا، وہاں پہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں پہ تو مزید زنجیریں ہی پہنائی جا رہی ہیں۔

اکبر: کہ آزاد بندے کو قید کر دیں۔

منیب: قید کر دیں! اب آپ آزاد تھے۔ آپ میں ایک حسن تھا۔ اِس نے اُس حسن کو زنگ لگا دیا۔

اکبر: صحیح!

منیب: اب ہم نے پھر ریگ مال چلانا ہے۔

خوبصورتی اِس فطرت کی یہ ہے، اِس کے پاس توبہ ہے۔ اِس کے پاس 10 دفعہ جاؤ، یہ پھر مانجھ دیتی ہے۔ ایک ریگ مال ہے یہ۔ آپ کو جتنا مرضی زنگ لگ جائے، ابھی بھی آپ کو کوئی ریگ مال مل جائے۔ ریگ مال ڈھونڈیں۔

اکبر: ریگ مال قرآن کی آیات ہیں۔

منیب: قرآن کی آیات بھی ہیں۔ قرآن بھی ریگ مال ہے اور قاری بھی ریگ مال ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: ریگ مال تو ہے قرآن۔ وہ ریگ مال پھیرے گا کون؟ وہ قاری پھیرے گا۔ قاریوں کو ڈھونڈیں۔ اب قاری سے میری مراد یہ قاری نہیں ہیں۔

اکبر: جو مسجد کے قاری ہیں؟

منیب: وہ تو خود بے چارے قید ہیں۔

اکبر: ہاں!

منیب: مسجد میں ہم جاتے ہی قید ہونے کے لیے ہیں۔ مسجد میں جاتے ہیں کہ ہمیں روٹی مل جائے۔

ہمیں کھانا مل جائے۔ ہمیں پیسے مل جائیں۔

اکبر: صحیح!

منیب: مسجد میں تو جانا ہی تب چاہیے جب پیسے ہی چھوڑ دئیے جائیں کہ یار! اب ہمیں پیسے نہیں چاہییں، ہمیں اللہ چاہیے۔

اکبر: صحیح!

منیب: پھر مسجد میں جاؤ۔ ہمارے ہاں تو جاتے ہی ہیں کہ ہمیں مسجد سے پھر دنیا مل جائے۔

ہمارا تو سلسلہ ہی الٹ ہے۔ ہم مسجد بھی جائیں گے دنیا کے لیے۔

بھئی دنیا کو تو چھوڑ کے اب ہم نے جنت پانی ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: وہ پھر ہم بات کریں گے کہ دنیا بھی جنت بن سکتی ہے کہ نہیں؟

تو وہ قاری نہیں! جیسے آپ کہہ رہے تھے نا کہ قاری کیا ہے؟ جس طرح ابو نے بھی ساری عمر یہی بتایا کہ قرآن کیا ہے؟ ایک نئی پیدائش! ایک مردِ حر کی پیدائش! آزاد کی پیدائش! وہ قاری چاہیے جو خود پیدا ہوا ہو نیا، جو خود نئی زندگی لے کر آیا ہے۔ ہمیں وہ قاری چاہیے۔

اکبر: سو فیصد صحیح!

منیب: وہ قاری پھر مانجھے گا۔

اکبر: وہ ایک نئی دنیا کی خبر دے گا۔

منیب: ہاں۔ یہ قرأت کرنی ہے۔ اگر قاری نہیں بھی ملتا، اپنی ذات میں شروع ہو جائیں، قرآن کو پکڑ لیں، آیات پہ غوروفکر کریں۔ یہ قرآن صرف اِن سطروں میں ہی نہیں ہے، یہ آس پاس بھی ہے۔

اکبر: ساری کائنات میں قرآن ہے۔

منیب: ہاں۔ کوئی انگریز بھی ہے، وہ بھی غوروفکر کر سکتا ہے۔ ہر ایک کے پاس۔۔۔ قرآن فطرت میں جاری ہے۔ قرآن کتاب میں بند نہیں ہے۔

اکبر: سو فیصد صحیح!

منیب: کچھ سطروں میں، آیات میں قید نہیں ہے۔ قرآن ہر طرف ہے۔ ہر طرف یہ عمل ایک نئی پیدائش کا ہر وقت جاری ہے۔ ہم نے اِس پیدائش کے عمل میں۔۔۔ ہم نے دوبارہ جنم لینا ہے۔ ہم نے دوبارہ زندہ ہو جانا ہے۔ ہم نے یہ قیدیں، زنجیریں، جکڑبندیاں، اتارنی ہیں۔

اکبر: ٹھیک!

منیب: اور اِس کے لیے کئی عمل ہیں۔

تو میں سمجھتا ہوں اکبر صاحب! آج ہماری یہ پہلی گفتگو ہے، ہم اسے زیادہ لمبا نہیں کرتے، ہم یہاں پہ رکتے ہیں، اور خلاصہ ہماری آج کی بات کا یہ ہے کہ کئی مسائل ہوں گے۔

ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟ آزادی!

آزادی، باہر کی آزادی نہیں۔ باہر آزادی لینے جائیں گے تو خون بہے گا اور یہاں پہ جنگیں لڑی گئی ہیں۔ جنگِ عظیم ہو گئیں ہیں۔ انقلابات کے انقلابات ہو گئے ہیں۔ ہر ایک نے کہا کہ یار! ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں، ہم دوسرے کو مار کے آزادی لیں گے، نہیں! یہ سب فیل ہے۔ ہمیں جنگیں نہیں لڑنیں، جنگیں ہم نے لڑ لی ہیں۔ اب ایٹم چلے گا نا، دنیا ہی ختم ہو گی۔ جنگِ عظیم میں جو ایٹم چلے ہیں، اُن میں طاقت تھی کہ ایک شہر اُڑتا تھا۔ اب وہ ایٹم ہم نے بنا لیے ہیں کہ پوری دنیا ہی اُڑ جائے گی۔

اکبر: صحیح!

منیب: اب باہر کی جنگیں ختم!

ابھی تک ہمارے سیاست دان کہہ رہے ہیں ہمیں انقلاب چاہیے۔

انقلاب چاہیے لیکن خونی انقلاب نہیں چاہیے! باہر کے انقلاب سے کچھ نہیں ہوتا۔ باہر کے جتنے انقلاب آئے ہیں، سب فلاپ ہوئے ہیں کیونکہ انقلاب آتا ہے اندر سے۔

اکبر: اندر سے، کوئی شک نہیں اِس میں!

منیب: انقلاب اندر سے بدلتا ہے۔ منقلب قلب ہوتے ہیں۔ انقلاب کا مادہ دیکھیں قلب ہے۔ قلب بدلتا ہے۔ اللہ کیا ہے؟ مقلبِ قلوب ہے، قلوب کو بدل دیتا ہے۔ آپ کو میں باہر سے لاکھ بدل دوں، جب تک آپ کو اندر سے نہ بدلوں، آپ پھر وہی ہو جائیں گے، پھر وہی ہو جائیں گے۔

اکبر: ایسے ہی ہے!

منیب: میں پتے کو ماروں نا اگر، پتا پھاڑ دوں، پتے کو کاٹ دوں، درخت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ پتا پھر نکل آئے گا۔ میں اگر جڑ کاٹ دوں نا، پتا نہیں نکلے گا۔ ہم نے جڑ کاٹنی ہے۔ جڑ ہے اندر۔ جڑ ہے زمین کے نیچے۔

اکبر: جی ہاں، ظلم کی جڑ کاٹنی ہے۔

منیب: ہاں، وہ ہے اندھیرے میں۔ ہم ہیں، انگریزی میں کہتے ہیں، visual creatures، ہمیں جو نظر آ رہا ہے، ہم اُس سے ایک ہو جاتے ہیں۔

ہمیں روشنی نظر آتی ہے، ہم کہتے ہیں کہ بس یہی ہے لیکن بہت کچھ اندھیرے میں ہو رہا ہے۔

اکبر: ہو ہی اندھیرے میں رہا ہے سارا۔ یہ اپر کلاس جو سسٹم رچا رہی ہے نا وہ ہمیں نہیں پتہ، وہ ہمارے لیے پالیسیاں اُدھر ہی تیار کر لیتی ہے، سارا سسٹم اپر لیول پر تیار کر کے ہمارے اوپر عذاب گرا دیتی ہے۔

منیب: ہاں، ایک تو وہ عذاب گراتی ہے۔ ایک ہم بھی عذاب گرا لیتے ہیں۔ وہ کس طرح؟ ہمارے میں بھی ایک روشنی ہے، ایک اندھیرا ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: جیسے شعور اور لاشعور ہے۔ شعور سمجھ لیں ایک ظاہری روشنی ہے، لاشعور اندھیرا ہے۔

انجان اندھیرا!

اکبر: ہاں جی!

منیب: حالانکہ وہ انجان نہیں ہے، اصل جاننا اسی انجان کا جاننا ہے۔

اکبر: صحیح!

منیب: تو ابھی ہم شعور کے ساتھ ایک ہیں، ہمیں اپنے لاشعور کا علم نہیں ہے۔ ہم بس جو نظر آ رہا ہے۔ اس کے پیچھے۔۔۔

آپ سمجھتے ہیں یہ جو منیب ہے، یہ جو نظر آ رہا ہے، یہی منیب ہے لیکن منیب بہت کچھ گہرا بھی ہے۔

میں اُس دن آپ سے کہہ رہا تھا کہ اکبر صاحب! کوئی کسی کو دیکھ نہیں سکتا۔

اکبر: صحیح بات ہے!

منیب: آج تک میں آپ کو دیکھ نہیں سکا۔ میں نے آپ کا جسم ضرور دیکھا ہے۔ وہ جو اندر ہے، جو اصل اکبر ہے، اُس کو نہیں میں دیکھ سکا۔

تو ہم نے لاشعور سے اپنی آزادی لینی ہے۔ لاشعور کو آزاد کرنا ہے۔ ابھی تو ہم شعوری طور پر ہی قید ہیں۔ ہم نے پہلے شعور کو آزاد کرنا ہے، پھر لاشعور کو آزاد کرنا ہے، اُس کے لیے کام کرنا ہے تو یہاں پہ میرا خیال ہے ہم رکتے ہیں۔

اکبر: رکتے ہیں اور ان شاء اللہ جو سلسلہ ہو گا، ترتیب وار شروع کریں گے۔ عدالتیں کیسے صحیح ہوں گی؟ تعلیم کا نظام کیسے صحیح ہو گا؟ صحت کیسے صحیح ہو گی؟ ایک عام بندے کے ذہن کے اوپر سے لوڈ کیسے اٹھایا جائے گا؟ ایک عام بندہ آزاد کیسے ہو گا؟

منیب: بالکل! یہ ہم عالمِ آزادگاں کیسے پیدا کریں؟یہ مردانِ حر کہاں سے آئیں گے؟ اس پہ ہم بات کریں گے، بس آج یہاں پہ رکتے ہیں، بہت شکریہ، اللہ حافظ!

اکبر: اللہ حافظ!

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا