مست چاند
| انجم بہ کف ہے رات صراحی بہ دست چاند |
| پی پی کے نور مہر کا نکلا ہے مست چاند |
| ہرچند گل کیے سبھی اسبابِ روشنی |
| لیکن بجھا نہ پائے کبھی شب پرست چاند |
| دشتِ فلک میں فکرِ دگرگوں کے واسطے |
| کرتا ہے روشنی کا سدا بندوبست چاند |
| آدم کی دست رس سے ہیں افلاک دم بہ خود |
| زہرہ ہے اِک زقند تو ہے ایک جست چاند |
| شب رو کو حق طلب یہ دکھاتا ہے راہِ حق |
| شاید کہ ہو گا شاہدِ روزِ الست چاند |
| کیوں کر کہوں کہ لگتا ہے وہ مجھ کو ماہ وش |
| ذوقِ رفیع اپنے کے آگے ہے پست چاند |
| دیپک، کنول، چراغ، دیے، موم بتیاں |
| ہیں دل شکستہ پر نہیں مانا شکست چاند |
| کہنا اُسے کہ بیت گیا ایک اور سال |
| نکلے جو اب کے پہلی کا ماہِ اگست چاند |
| کیا ہے منیبؔ اپنے تخیل سے ماورا |
| تاروں میں بود و باش کبھی بود و ہست چاند |