اشاعتیں

ستمبر, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نیکی و بدی ایک ہی سکے کے ہیں دو رخ

نیکی و بدی ایک ہی سکے کے ہیں دو رخ رابن ۱ کی طرح ٹھگ کوئی ٹھگنا بھی تو چاہے سورج کی طرح سب کو چمکنے کی ہے خواہش سورج کی طرح کوئی سلگنا بھی تو چاہے کتنا نہیں چاہا کہ لگائیں کہیں دل کو یہ جان کا لاگو کہیں لگنا بھی تو چاہے ۱  رابن ہڈ Robin Hood

درد تھا وقتی مسلسل ہو گیا

درد تھا وقتی مسلسل ہو گیا صاحبو! میں آج یا کل ہو گیا وہ تھا اِک سورج جو گرماتا رہا میں تھا اِک قطرہ جو بادل ہو گیا وہ تھا اِک ساحل‘ میں پتلا لون کا یوں ہوا جل تھل کہ میں حل ہو گیا میں نے یہ چاہا کہ پہنچوں اُس تلک اور اپنے سے بھی پیدل ہو گیا میں نے یہ جانا تھا لگ جائے گی دیر راستہ جلدی مکمل ہو گیا پاگلوں پہ میں بھی ہنستا تھا کبھی ہنستے ہنستے خود بھی پاگل ہو گیا مت کرو فکرِ دوائے دردِ دل ہو گیا میں جتنا گھائل ہو گیا رنگ لائی صحبتِ اہلِ صفا ہوتے ہوتے میں بھی نِرمل ہو گیا ضبط نے اِظہار کو جکڑا بہت کچھ بیاں پھر بھی مفصل ہو گیا

ڈائری کا پہلا اور آخری صفحہ

رات کے دس بج رہے ہیں اور میرا بڑا دل کر رہا ہے کہ کچھ لکھوں۔ ویسے تو میں نے آج تک کچھ کم نہیں لکھا۔ کئی دفتر سیاہ کیے ہیں شاعری اور زباندانی کے شوق میں۔ لیکن پھر بھی دل نہیں بھرا۔ جی چاہتا ہے مزید کھل کر لکھوں۔ بغیر ردیف اور قافیے کی پابندی کے۔ بغیر بحروں کی قید کے۔ آزادانہ! بےباکانہ! لیکن لکھوں کس بارے؟ میں کس بارے میں جانتا ہوں؟ شاعری؟ زبان و ادب؟ فلسفہ؟ زندگی؟ موت؟ نہیں! ضروری تو نہیں اسی بارے میں لکھوں جسے میں جانتا ہوں۔ کیوں نہ اس بارے میں لکھوں جسے میں نہیں جانتا۔ ایسا کیا ہے جسے میں نہیں جانتا؟ میں اپنے آپ کو نہیں جانتا! چلو، پھر اپنے بارے میں ہی لکھتا ہوں۔ لیکن اپنے بارے میں کس بارے لکھوں؟ میری سوچ، میری عادتیں، میرے خیالات، میرا گھربار ۔۔ نہیں! اتنا میرا میرا میں نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے میرے میں دلچسپی نہیں، نہ تیرے میں ہے۔ میرے تیرے کے پار کہیں جانے کا دل کرتا ہے۔ جہاں نہ میں، نہ تو! نہ آج، نہ کل! نہ رات، نہ دن! نہ دھوپ، نہ چھاؤں! ایسی جگہ کون سی ہے؟ کون جانے؟ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ اپنے ک

ہو سکتا ہے

ہو سکتا ہے تم روز کو بھی رات سمجھ لو ہو سکتا ہے تم رات کو بھی رات نہ جانو ہو سکتا ہے تم بات کے الفاظ پکڑ لو الفاظ کے پردے میں کہی بات نہ جانو ہو سکتا ہے تم گردشِ حالات کو دیکھو ہو سکتا ہے تم باعثِ حالات نہ جانو ہو سکتا ہے تم حاملِ تورات ہو لیکن ہو سکتا ہے تم معنیِ تورات نہ جانو ہو سکتا ہے تم ذاتِ خدا پر کرو بحثیں ہو سکتا ہے تم آدمی کی ذات نہ جانو منیب احمد 3 ستمبر 2018 لاہور

پرواز کرنی ہے مجھے

زندگانی صورتِ شہباز کرنی ہے مجھے گھر نہیں کرنا‘ فقط پرواز کرنی ہے مجھے