درد تھا وقتی مسلسل ہو گیا

درد تھا وقتی مسلسل ہو گیا
صاحبو! میں آج یا کل ہو گیا
وہ تھا اِک سورج جو گرماتا رہا
میں تھا اِک قطرہ جو بادل ہو گیا
وہ تھا اِک ساحل‘ میں پتلا لون کا
یوں ہوا جل تھل کہ میں حل ہو گیا
میں نے یہ چاہا کہ پہنچوں اُس تلک
اور اپنے سے بھی پیدل ہو گیا
میں نے یہ جانا تھا لگ جائے گی دیر
راستہ جلدی مکمل ہو گیا
پاگلوں پہ میں بھی ہنستا تھا کبھی
ہنستے ہنستے خود بھی پاگل ہو گیا
مت کرو فکرِ دوائے دردِ دل
ہو گیا میں جتنا گھائل ہو گیا
رنگ لائی صحبتِ اہلِ صفا
ہوتے ہوتے میں بھی نِرمل ہو گیا
ضبط نے اِظہار کو جکڑا بہت
کچھ بیاں پھر بھی مفصل ہو گیا

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا