اشاعتیں

مئی, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مردانِ حر

منیب: میں نے جب اِس پہ غور کیا تو یہ سمجھا کہ جو آدمی ہے نا، وہ اپنی ذات میں آزاد نہیں ہے۔ اکبر: صحیح! منیب: پیدا ہوتے ہی نا، اُس کے اوپر قیدیں ہیں۔ اکبر: لمیٹیشنز (limitations) ہیں۔ منیب: ہاں، معاشرے کی قیدیں! ذمہ داریاں! کہ یار تو نے یہ یہ کرنا ہے۔ اکبر: صحیح! منیب: اُس کرنے کے چکر میں وہ ایسا پھنستا ہے کہ اُس سے نکل ہی نہیں پاتا۔ پچاس سال عمر ہو جاتی ہے، ساٹھ ستر سال، زندگیوں کی زندگیاں لگ جاتی ہیں۔ اکبر: ایسے ہی ہے! منیب: پھر حل کیا ہے؟ حل کیسے ہو سکتا ہے؟ میں یہ سمجھا ہوں کہ جب تک اُس فرد کو نظر نہ دے دی جائے، اُسے وژن (vision) نہ دے دیا جائے کہ بھئی تو نے نظر کدھر رکھنی ہے؟ اکبر: صحیح! منیب: میں نے آج تک جتنے دوستوں سے بات کی، ہمسایوں سے بات کی، سب نے کہا کہ یار! میں نے تو یہ یہ کرنا ہے، یہ یہ جاب (job) کرنی ہے۔ سب جو لگے بندھے ہیں نا، سماج کے، ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، سب لگی بندھی سوچ وہی ہے۔ نظر نہیں ہے! ان کے پاس وژن نہیں ہے۔ انھیں جو ملا ہے، وہ اُسی میں