اشاعتیں

اگست, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

رات اور رات بھی برسات کی رات

رات اور رات بھی برسات کی رات کاش ہوتی یہ ملاقات کی رات جیت کے دن سے بہت بڑھ کر ہے اہلِ ہمت کے لیے مات کی رات جی میں آتا ہے کہ سب سے چھپ کر کوچ کر جائیں کہیں رات کی رات

نہ دل ہوتا تو دیوانا نہ ہوتا

نہ دل ہوتا تو دیوانا نہ ہوتا گل و بلبل کا افسانا نہ ہوتا سبھی اپنوں سے بے گانے تو ہوتے کوئی اپنے سے بے گانا نہ ہوتا اگر رومیؒ کو تبریزیؒ نہ ملتا تو وہ ملّا سے مولانا نہ ہوتا حقیقت کیا تھی؟ اِس کو جان لیتے اگر پہلے سے کچھ مانا نہ ہوتا گل و گلزار ہوتا کس طرح میؔم فنا گر خاک میں دانا نہ ہوتا

طالبِ دیدار کی ہمت ہی ہے

طالبِ دیدار کی ہمت ہی ہے ہر قدم اِس راہ میں حیرت ہی ہے موند کر آنکھیں اگر دیکھے کوئی پردۂ کثرت میں بھی وحدت ہی ہے نفس ہو گر مطمئن، اے ہم نفس! پھر یہ دنیا بھی کوئی جنت ہی ہے عقل دیتے ہیں تو لے لیتے ہیں عمر بخش دیں دونوں تو یہ نعمت ہی ہے خواب سی جو زندگانی ہے منیبؔ جاگنے کی نیند سے مہلت ہی ہے

مول ہوتا ہے دل سے کرنے کا

مول ہوتا ہے دل سے کرنے کا ورنہ کرنا فضول ہوتا ہے اُس کو جینے کا ڈھنگ آتا ہے جس کو مرنا قبول ہوتا ہے کچھ بھی بے ضابطہ نہیں ہوتا سب کے پیچھے اصول ہوتا ہے دکھ میں لگتے ہیں پھول بھی کانٹے سکھ میں کانٹا بھی پھول ہوتا ہے جہاں بستی میں نیم ہوتی ہے وہیں بن میں ببول ہوتا ہے جوہری کی نگاہ پڑتی ہے ورنہ ہیرا بھی دھول ہوتا ہے مجھ کو دنیا منیبؔ لگتی ہے جیسے کوئی سکول ہوتا ہے

سب ریلیٹو (relative) ہے

اب مجھے کچھ بھی نہیں ہونا ہے بلکہ جو ہے‘ اُسے بھی کھونا ہے مجھ سے باتیں نہ کرو دکھ سکھ کی مجھ کو ہنسنا ہے‘ نہ ہی رونا ہے جو سناروں کے لیے مٹی ہے وہ کسانوں کے لیے سونا ہے جو کسی ایک طرف مرکز ہے وہ کسی اور طرف کونا ہے جو گلہری کے لیے لمبا ہے وہ پہاڑوں کے لیے بونا ہے جو سکندر کے لیے پانا ہے وہ دیوژن کے لیے کھونا ہے

کیا دیجیے کسی کو اب دوش میمؔ صاحب

کیا دیجیے کسی کو اب دوش میمؔ صاحب ہم خود ہی ہو گئے ہیں خاموش میمؔ صاحب جب سے مقامِ اشیاء جانا گیا ہے تب سے ہم مرتبہ ہیں تاج اور پاپوش میمؔ صاحب رفتار کیا کرو گے بیدار گر نہیں ہو کچھوے سے ہار بیٹھا خرگوش میمؔ صاحب کیا اِس گھڑی کہیں میں بے ہوش تو نہیں ہوں؟ اِس بات کا ہی رکھنا تم ہوش میمؔ صاحب آئے گا ہاتھ مطلب بعد از ہزار کوشش کیوں ہو گئے ابھی سے کم کوش میمؔ صاحب؟ پنکھ اور کچھ پسارو آکاش کو سدھارو اب چھوڑ دو زمیں کی آغوش میمؔ صاحب شعر و سخن پہ پھر سے مائل ہوئے ہو لیکن پہلے سا اب کہاں ہے وہ جوش میمؔ صاحب

ایک دن سب ہوں گے جاگے

ایک دن سب ہوں گے جاگے‘ دیکھیے لیک کتنی دیر لاگے؟ دیکھیے! فرق کرنا ہو اگر رنگوں کے بیچ آنکھ سے درزی کی دھاگے دیکھیے مغربی کھنچنے لگے مشرق کی اور مشرقی‘ مغرب کو بھاگے‘ دیکھیے اب جو کرنا تھا وہ کر چوکے ہیں آپ پیچھے مت دیکھیں‘ بس آگے دیکھیے بلبلوں کا نام ہی سنیے الفؔ اُڑتے چاروں اور کاگے دیکھیے

ایک الف بے بالو

ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو میں نہ کہوں کچھ اپنے بارا وہ کہتا ہے میرے دوارا جیون بازی کون نہ ہارا ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو اندھیارے میں کس کو پکارے نرگن نرمل ہو جا پیارے جاتے ہیں اِس راہ سے سارے ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو مہمل اور با معنا کیا ہے تھپکی کیا اور طعنا کیا ہے عین الف سے تعنا کیا ہے ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو تے میں طا میں رکھا کیا ہے توطا ہنستا ہنستا آ ہے ٹھونگا مار کے اڑتا جا ہے ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو کام نہایت انت کیا ہے جس نے ہم کو سنت کیا ہے ڈوری کاٹ کے رنت کیا ہے ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو لمبائی میں لمبایانا گولائی میں گولایانا چرپائی میں چرپایانا ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو ڈھائی پورے سات ہوئے ہیں پیلے اپنے ہات ہوئے ہیں رخصت کے اوقات ہوئے ہیں ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو ایک الف بے بالو رے ایک الف بے بالو