اشاعتیں

2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

شعروں سے تعلق تو نبھانا ہو گا

شعروں سے تعلق تو نبھانا ہو گا پر جی کو رباعی سے لگانا ہو گا جن جن کے تصور سے تھی آباد غزل اب اُن کو کسی طور بھلانا ہو گا

دن رات کا افسانہ تو آنکھوں میں سمٹ جائے

دن رات کا افسانہ تو آنکھوں میں سمٹ جائے پڑھنے میں ترا چہرہ کہیں عمر نہ کٹ جائے کچھ ہاتھ سرِ روزنِ زنداں تو اُٹھے ہیں شاید مری تقدیر کا پانسا بھی پلٹ جائے فاتؔح چلے آتے ہیں سرِ بزمِ سخن گوئی کم فہم کو لازم ہے کہ وہ آگے سے ہٹ جائے

جو حکایت تمھارے نام ہوئی

جو حکایت تمھارے نام ہوئی خوب مقبولِ خاص و عام ہوئی مٹ گیا رنگِ امتیازِ فلک جب زمیں پر نمودِ شام ہوئی عقل کی مشعلیں ہی سلگا لو سوزشِ عشق گر تمام ہوئی وقت کی آگ پر یہ خشتِ حیات جتنی پختہ ہوئی سو خام ہوئی ایک تفہیم جو کبھی نہ ہوئی ایک تنقید جو مدام ہوئی میں نہیں میری شاعری فاتؔح خوب مقبولِ خاص و عام ہوئی

آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے

آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے یوں ملنا ملانا مرا دستور نہیں ہے چپ چاپ اُسے دیکھتا ہوں غیر کے ہمراہ باتوں کو بڑھانا مرا دستور نہیں ہے پھرتا ہے پشیمان وہ خود روٹھ کر اب کے ہر بار منانا مرا دستور نہیں ہے مجبور نہ کر مجھ کو ترے دیس کو چھوڑوں پھر لوٹ کے آنا مرا دستور نہیں ہے سننے کا بہت شوق ہے اُن کو مرے ارمان پر خواب سنانا مرا دستور نہیں ہے ہو گا کہ یہ تکلیف دہی تیری نہج ہو اشکوں کا بہانا مرا دستور نہیں ہے مت ڈوبتی کشتی سے مجھے دیکھ مرے دل امید دلانا مرا دستور نہیں ہے مشتاق کوئی چارہ نوازی کا ہو فاتحؔ احسان اٹھانا مرا دستور نہیں ہے

آسماں پر سحاب حیرت ہے

آسماں پر سحاب حیرت ہے یہ نقابِ نقاب حیرت ہے کعبہ پر ہے گمان پانی کا در طوافِ سراب حیرت ہے جبکہ عالم تمام ہے نشہ مے کدوں میں شراب حیرت ہے آنا اپنا ہزار دقت سے اور جانا شتاب حیرت ہے صبح تھا میں سوال پر حیران شام پا کر جواب حیرت ہے بندہ دیکھے یا بندہ پرور میمؔ خواب در ہر نقاب حیرت ہے

نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے

نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے چمن پہ اور بھی آئے نکھار جانے دے کسے گمان کروں آشنائے حالِ خراب اگر نہ کوئی سرِ کوئے یار جانے دے لہو کو ننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے اے خستہ پائی سوئے خار زار جانے دے اُٹھا نہ پاؤں مرے سینۂ محبت سے مبادا جان دلِ بے قرار جانے دے سنا ہے دشت میں فاتحؔ تکے ہے تیری راہ اے شہر آرا وہاں کچھ غبار جانے دے

دنیا کے جب طلسم سے آزاد ہو گئے

دنیا کے جب طلسم سے آزاد ہو گئے ہم آپ اپنے جسم سے آزاد ہو گئے مجنون کہہ پکارتے پھرتے ہیں ان کو لوگ جو قید و بندِ اسم سے آزاد ہو گئے اِس مے کدے کے پیالے کبھی مشتِ خاک تھے حیرت ہے اپنی قسم سے آزاد ہو گئے

آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے

آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے پھول کے ہم دست کچھ آتے ہیں خار آزمائش وسعتِ داماں کی ہے کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک کشمکش پھر دوزخ و رضواں کی ہے ہے خدا کی حضرتِ انساں کو فکر اور اُس کو حضرتِ انساں کی ہے تیرے ہی پاؤں نے مسلا روئے گل سب عنایت گلشنِ امکاں کی ہے حکم ہے اگلے جہاں رکنے کا میمؔ پھر طلب تجھ سوختہ ساماں کی ہے

ہزار خار سہی پائے جستجو کے لیے

کسے فراغ پریشانیِ عدو کے لیے بہت ہے حلقۂ احباب ہاؤ ہو کے لیے حسد سے مانگتی پھرتی ہے چشمِ رو بہ فرار شکست تمکنتِ حسنِ خوب رو کے لیے ز شہرِ سنگ پرستاں ہوں داد خواہِ جنوں شکستِ شیشۂ پندارِ آبرو کے لیے سخن طرازیِ فاتح ہے پاسِ اہلِ ہنر مقامِ نقد نہیں خوئے عیب جو کے لیے (ق) اُڑی جو دشت میں بادِ خزاں بھبوکے لیے تو پہلے بوسے مری چشمِ بے وضو کے لیے کہا یہ میں نے کہ مت چھیڑ فکرمندِ بہار! کہ ہم بھی بیٹھے ہیں کچھ داغ آرزو کے لیے ذرا متابعِ جوشِ جنوں تو ہوں کہ چلیں ہزار خار سہی پائے جستجو کے لیے

گر شرحِ نکتہ ہائے حکیمانہ چاہیے

گر شرحِ نکتہ ہائے حکیمانہ چاہیے طبعِ سلیم! عقلِ سلیمانہ چاہیے ہے پردگی ظہور کا سامانِ واقعی معبود بہرِ عبد حجابانہ چاہیے مشمولِ اہلِ باغ ہوں ہر چند مثلِ گل یک رنگِ خودنمائی جداگانہ چاہیے ہو جائے کشت و خون مبادا رواج کار ہر شہر ساتھ جادہِ ویرانہ چاہیے شمعِ کلامِ فاتحِ مجذوب کے لیے وارفتگاں میں خوبیِ پروانہ چاہیے

روزنِ حسرتِ یار بجھا ہے

روزنِ حسرتِ یار بجھا ہے‘ دل کے دریچے موڑ چکے جام و سبو بے کار پڑے ہیں‘ ساغر و مینا توڑ چکے فکر و تأمل ہی سے علاقہ شعر و سخن کی بابت تھا سو یہ زمامِ کار بھی آخر خواہی نخواہی چھوڑ چکے

میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں

میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں یہی وہ عذابِ عظیم ہے کوئی بڑھ کے جس سے سزا نہیں اے مذاقِ شعر برا کیا کہ لگائی کارِ عبث کی لت کوئی اِس سے کام بنا نہیں کوئی اور کام ہوا نہیں وہ تمام لمحے جو بے غرض طلبِ ہنر میں لگا دیے یہ بتا رہے ہیں دمِ وداع کوئی مجھ سے ناداں بڑا نہیں مرے حرف حرف میں رنگ تھا مرے شعر شعر میں نقش تھا جو کمی رہی تو یہی رہی کوئی صادقین ملا نہیں یوں چرا لیا مرے حسن کو متشاعروں نے فریب سے مرا آئینہ بھی خفا ہوا مجھے ناز خود پہ رہا نہیں جو سنا سنا جو کہا کہا جو ہوا ہوا جو کیا کیا جو بنے بنے جو ملے ملے کیا بجا بجا کیا بجا نہیں میں حیات مانگوں قضا ملے جو ممات چاہوں ملے دوام رہا اتضاد مرے لیے میں نے ہاں کہی وہ سنا نہیں میں چلا گیا تو بہت ہوئے مرے مدح خواں مرے قدرداں ہے یہ قاعدہ مرے شہر کا جو مرا نہیں سو جچا نہیں یہ حدیثِ دل یہ حدیثِ دل میں کسے کہوں میں کسے کہوں مرے پاس رک مرے پاس رک کوئی میرے پاس رکا نہیں کھلا اُس پہ جب مرے دل کا حال بہت دور مجھ سے چلا گیا وہ بھی ایک قطرۂ اشک ہے جسے فکرِ چشم ذرا نہیں اے رہ

وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی

وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی جتنی ہم سمجھے تھے غم میں اُتنی گہرائی نہ تھی آنکھ میری بھی اگرچہ کم تماشائی نہ تھی کچھ بیاں کرنے کو لیکن تابِ گویائی نہ تھی چارہ گر! مانا دوائے زخمِ تنہائی نہ تھی دیکھ لینے میں مریضوں کو تو رسوائی نہ تھی اک ہمارا دل تھا جس کے پاس دانائی نہ تھی سیلِ غم تھا اور خوئے بادہ پیمائی نہ تھی میرے مداحین نکلے قبر میں منکر نکیر حشر تک صحبت رہی ایسی کہ تنہائی نہ تھی وائے مایوسی برائے دیدہ ہائے موسوی ذوقِ نظارہ تھا لیکن کوئی بینائی نہ تھی حلف پھر اُس نے اُٹھایا داد رس ہونے کا حیف جس کے ایوانوں میں فاتح میری شنوائی نہ تھی

عالمِ حوادث کا اعتبار مجبوری

عالمِ حوادث کا اعتبار مجبوری ورنہ کس سے مخفی ہے آج قرب کل دوری زہر کو دوا سمجھا اور دوا کو مجبوری کتنی خوش گمانی میں جان سے ہوئی دوری دیکھیے اگر پھیلے تو لپیٹ لے کیا کیا اب تلک تو سمٹی ہے دل میں داستاں پوری آپ اور میرا غم جاننے سے ہیں قاصر خوب ہم سمجھتے ہیں مدعائے معذوری دل بھی تھک گیا فاتحؔ اور پائے خستہ بھی کب تلک کیے جاتے روز و شب کی مزدوری

مرے نقش سب خیالی مرے حرف بے معانی

مرے نقش سب خیالی مرے حرف بے معانی تری داستاں کی خاطر مری زندگی کہانی ہے کسی کی آزمائش فقط اک شجر کا ہونا یا کسی کی زندگی کے شب و روز امتحانی میں نگر نگر سے کہہ دوں میں شجر شجر پہ لکھ دوں یاں مکاں مکاں سے پیدا ہے نوشتِ لا مکانی کبھی ناز تھا بدن پر کبھی جوش تھا لہو میں ہوا سرد آخرش پر مرا سوزِ نوجوانی کیا زمیں کا رہنے والا مری داستان سمجھے مجھے گفتگو فلک سے مرا عشق آسمانی یہی سوچتا تھا فاتح سرِ شہرِ چارہ سازاں یہ خلش عطاے دل ہے یا نصیبِ زندگانی منیب احمد 25 جنوری 2013 لاہور