نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے

نہ آج روک مجھے اے بہار جانے دے
چمن پہ اور بھی آئے نکھار جانے دے
کسے گمان کروں آشناے حالِ خراب
اگر نہ کوئی سرِ کوے یار جانے دے
لہو کو ننگ ہے اِن آبلوں سے پھوٹ بہے
اے خستہ پائی سوے خار زار جانے دے
اُٹھا نہ پاؤں مرے سینۂ محبت سے
مبادا جان دلِ بے قرار جانے دے
سنا ہے دشت میں فاتحؔ تکے ہے تیری راہ
اے شہر آرا وہاں کچھ غبار جانے دے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مست چاند

اِک بار ترے دیکھنے کی چاہ تھی ہم کو

ایک صبح دس بجے