آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے

آرزو جس عہدِ بے پایاں کی ہے
وہ گھڑی نظارۂ خوباں کی ہے
پھول کے ہم دست کچھ آتے ہیں خار
آزمایش وسعتِ داماں کی ہے
کل کھلی جو آنکھ تو دیکھو گے ایک
کش مکش پھر دوزخ و رضواں کی ہے
ہے خدا کی حضرتِ انساں کو فکر
اور اُس کو حضرتِ انساں کی ہے
تیرے ہی پاؤں نے مسلا روے گل
سب عنایت گلشنِ امکاں کی ہے
حکم ہے اگلے جہاں رکنے کا میمؔ
پھر طلب تجھ سوختہ ساماں کی ہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا