وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی
وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی جتنی ہم سمجھے تھے غم میں اُتنی گہرائی نہ تھی آنکھ میری بھی اگرچہ کم تماشائی نہ تھی کچھ بیاں کرنے کو لیکن تابِ گویائی نہ تھی چارہ گر! مانا دوائے زخمِ تنہائی نہ تھی دیکھ لینے میں مریضوں کو تو رسوائی نہ تھی اک ہمارا دل تھا جس کے پاس دانائی نہ تھی سیلِ غم تھا اور خوئے بادہ پیمائی نہ تھی میرے مداحین نکلے قبر میں منکر نکیر حشر تک صحبت رہی ایسی کہ تنہائی نہ تھی وائے مایوسی برائے دیدہ ہائے موسوی ذوقِ نظارہ تھا لیکن کوئی بینائی نہ تھی حلف پھر اُس نے اُٹھایا داد رس ہونے کا حیف جس کے ایوانوں میں فاتح میری شنوائی نہ تھی