اشاعتیں

فروری, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی

وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی جتنی ہم سمجھے تھے غم میں اُتنی گہرائی نہ تھی آنکھ میری بھی اگرچہ کم تماشائی نہ تھی کچھ بیاں کرنے کو لیکن تابِ گویائی نہ تھی چارہ گر! مانا دوائے زخمِ تنہائی نہ تھی دیکھ لینے میں مریضوں کو تو رسوائی نہ تھی اک ہمارا دل تھا جس کے پاس دانائی نہ تھی سیلِ غم تھا اور خوئے بادہ پیمائی نہ تھی میرے مداحین نکلے قبر میں منکر نکیر حشر تک صحبت رہی ایسی کہ تنہائی نہ تھی وائے مایوسی برائے دیدہ ہائے موسوی ذوقِ نظارہ تھا لیکن کوئی بینائی نہ تھی حلف پھر اُس نے اُٹھایا داد رس ہونے کا حیف جس کے ایوانوں میں فاتح میری شنوائی نہ تھی

عالمِ حوادث کا اعتبار مجبوری

عالمِ حوادث کا اعتبار مجبوری ورنہ کس سے مخفی ہے آج قرب کل دوری زہر کو دوا سمجھا اور دوا کو مجبوری کتنی خوش گمانی میں جان سے ہوئی دوری دیکھیے اگر پھیلے تو لپیٹ لے کیا کیا اب تلک تو سمٹی ہے دل میں داستاں پوری آپ اور میرا غم جاننے سے ہیں قاصر خوب ہم سمجھتے ہیں مدعائے معذوری دل بھی تھک گیا فاتحؔ اور پائے خستہ بھی کب تلک کیے جاتے روز و شب کی مزدوری