اشاعتیں

اکتوبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چمن میں گرچہ گل و لالہ کی کمی ہے بہت

چمن میں گرچہ گل و لالہ کی کمی ہے بہت اُسے جو دیکھنا چاہیں اُنھیں یہی ہے بہت خزاں کا ڈر ہے کہ گل چیں کا ہے بتا بلبل کلی کلی کے لیے تجھ کو بے کلی ہے بہت گلے ملے ہیں ملائے ہیں ہاتھ آپس میں مگر ہے یوں کہ ہر اک شخص اجنبی ہے بہت وہ شعلہ رخ ہے مری چشم کے دریچوں میں ابھی دیے نہ جلاؤ کہ روشنی ہے بہت یہی بہت ہے اگر مرگ بے کراں ہو منیبؔ کہ زندگی تو ہماری نپی تلی ہے بہت

گریجویشن کا آخری سال

میں چپ‘ آخری سال بھی چپ ہے جی سی کا گھڑیال بھی چپ بسّیں بھی خاموش کھڑی ہیں اور بخاری ہال بھی چپ ایمفی خالی‘ کیفے بند اور مسجد کا مینار خموش گزٹ کے دفتر کی تختی پر ناموں کا انبار خموش ہرے سمندر میں اووَل کے رنگوں کی نیا چپ چپ گورے چہرے‘ کالی آنکھیں‘ پھول مہکتا سا چپ چپ شعبۂ اُردو کی دیواروں پر جمتی کائی خاموش کوئی منیب احمد تھا کبھی یاں بس بھائی‘ بھائی خاموش!