اشاعتیں

مارچ, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں

میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں یہی وہ عذابِ عظیم ہے کوئی بڑھ کے جس سے سزا نہیں اے مذاقِ شعر برا کیا کہ لگائی کارِ عبث کی لت کوئی اِس سے کام بنا نہیں کوئی اور کام ہوا نہیں وہ تمام لمحے جو بے غرض طلبِ ہنر میں لگا دیے یہ بتا رہے ہیں دمِ وداع کوئی مجھ سے ناداں بڑا نہیں مرے حرف حرف میں رنگ تھا مرے شعر شعر میں نقش تھا جو کمی رہی تو یہی رہی کوئی صادقین ملا نہیں یوں چرا لیا مرے حسن کو متشاعروں نے فریب سے مرا آئینہ بھی خفا ہوا مجھے ناز خود پہ رہا نہیں جو سنا سنا جو کہا کہا جو ہوا ہوا جو کیا کیا جو بنے بنے جو ملے ملے کیا بجا بجا کیا بجا نہیں میں حیات مانگوں قضا ملے جو ممات چاہوں ملے دوام رہا اتضاد مرے لیے میں نے ہاں کہی وہ سنا نہیں میں چلا گیا تو بہت ہوئے مرے مدح خواں مرے قدرداں ہے یہ قاعدہ مرے شہر کا جو مرا نہیں سو جچا نہیں یہ حدیثِ دل یہ حدیثِ دل میں کسے کہوں میں کسے کہوں مرے پاس رک مرے پاس رک کوئی میرے پاس رکا نہیں کھلا اُس پہ جب مرے دل کا حال بہت دور مجھ سے چلا گیا وہ بھی ایک قطرۂ اشک ہے جسے فکرِ چشم ذرا نہیں اے رہ