اشاعتیں

مئی, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ساتھ رہتے ہیں مگر دور ہیں لوگ

ساتھ رہتے ہیں مگر دور ہیں لوگ کس قدر شہر کے مغرور ہیں لوگ سب کی آنکھوں میں نمی دیکھتا ہوں جانے کس بات پہ رنجور ہیں لوگ قید ہیں ذہن کے زنداں میں سبھی دل تک آتے نہیں‘ مجبور ہیں لوگ آگ مقصد کی دبی ہو جن میں خاک ہو کر بھی وہ پر نور ہیں لوگ پیار معمور نہ ہو آپس میں شاید اِس امر پہ مامور ہیں لوگ ہو کے مشہور تو لوگوں میں نہ بھول بھول جانے میں بھی مشہور ہیں لوگ کیونکر اِفہام کروں اِن سے منیبؔ ابھی تفہیم سے معذور ہیں لوگ