اشاعتیں

2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

یاد رکھ

تو گلشنِ فنا میں ہے آباد یاد رکھ ہر ہر روش ہے تاک میں صیاد یاد رکھ آیا ہے دور جس میں ہنرور ہیں کامیاب بے کار جائیں گی تری اسناد یاد رکھ ملحد وہی نہیں‘ جو نہ مانے خدا کی ذات خود کو نہ ماننا بھی ہے الحاد یاد رکھ حاضر تو کر دلیل مددگارِ حق ہے تو آئے گی آپ غیب سے امداد یاد رکھ ظلمت جہاں ہے آج‘ وہاں روشنی ہے کل ہے یہ جہاں مرکبِ اضداد یاد رکھ تیشے کو اپنے شوق کے ہرچند تھام لے شیریں نہیں مشقتِ فرہاد یاد رکھ تن پروری کی فکر میں گھلتا ہے کس لیے؟ مٹی تلے ہی گھلتے ہیں اجساد یاد رکھ نشوونمائے روح کی مہلت ہے زندگی خاکی نہاد جسم کی میعاد یاد رکھ دل میں توہمات کی دیوار مت اٹھا بیٹھے گی اِس مکان کی بنیاد یاد رکھ فکر و عمل کی طرز چن اپنے لیے جدید فرسودہ حال ہے رہِ اجداد یاد رکھ چھوٹا بھی کوئی کام ہو‘ جلدی تمام کر سب سے عظیم وقت ہے جلاد یاد رکھ لگتا ہے زنگ‘ چھوڑ نہ لانا بروئے کار ہے عزم تیرا صورتِ فولاد یاد رکھ موجد تو خود ہے اپنے مقدر کا‘ بے خبر! تیرا نصیب ہے تری ایجاد یاد رکھ مت سن جو ناقدین کریں نقد و اِنتقاد تو آپ اپنے فن کا ہے نقاد یاد رکھ پانی ل

مست چاند

انجم بکف ہے رات‘ صراحی بدست چاند پی پی کے نور مہر کا نکلا ہے مست چاند ہرچند گل کیے سبھی اسبابِ روشنی لیکن بجھا نہ پائے کبھی شب پرست چاند دشتِ فلک میں فکرِ دگرگوں کے واسطے کرتا ہے روشنی کا سدا بندوبست چاند آدم کی دسترس سے ہیں افلاک دم بخود زہرہ ہے اِک زقند‘ تو ہے ایک جست چاند شب رو کو حق طلب یہ دکھاتا ہے راہِ حق شاید کہ ہو گا شاہدِ روزِ الست چاند کیونکر کہوں کہ لگتا ہے وہ مجھ کو ماہ وش ذوقِ رفیع اپنے کے آگے ہے پست چاند دیپک‘ کنول‘ چراغ‘ دیے‘ موم بتیاں ہیں دل شکستہ پر نہیں مانا شکست چاند کہنا اُسے کہ بیت گیا ایک اور سال نکلے جو اب کے پہلی کا ماہِ اگست چاند کیا ہے منیبؔ اپنے تخیل سے ماورا تاروں میں بود و باش کبھی بود و ہست چاند

تم جو بیمار بنے بیٹھے ہو

تم جو بیمار بنے بیٹھے ہو کیوں اداکار بنے بیٹھے ہو تم میں تھی قدرتِ عیسیٰ نفسی تمھی ناچار بنے بیٹھے ہو تم تھے نقاشِ مقدر اپنے نقشِ دیوار بنے بیٹھے ہو جوہرِ ذات بھی رکھ کر نادر کتنے نادار بنے بیٹھے ہو خود کو کہلا کے خدا کا نائب بتِ پندار بنے بیٹھے ہو سرد دل سرد بدن سرد نگاہ گرم گفتار بنے بیٹھے ہو شک کی دیوار اٹھا کر دل میں خاطر آزار بنے بیٹھے ہو شب پرستوں کی مجالس میں منیبؔ شمع بردار بنے بیٹھے ہو منیب احمد 17 ستمبر 2016 لاہور

کچھ مت سوچ

گم نہ رہ سوچ میں تو‘ دیکھ کے چل‘ کچھ مت سوچ ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل‘ کچھ مت سوچ دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم موم بتی کی طرح چپکے پگھل‘ کچھ مت سوچ روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول؟ کچھ مت سوچ معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب‘ زیرِ شجر میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ بیج بو بیج‘ یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی فصل ناکام رہے گی کہ سپھل؟ کچھ مت سوچ اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل‘ کچھ مت سوچ زندگی جنگ ہے‘ لمحات سے لڑنا ہے تجھے جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ خود کو مصروف رکھ اِس آج کے عرصے میں منیبؔ کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل‘ کچھ مت سوچ!

ساتھ رہتے ہیں مگر دور ہیں لوگ

ساتھ رہتے ہیں مگر دور ہیں لوگ کس قدر شہر کے مغرور ہیں لوگ سب کی آنکھوں میں نمی دیکھتا ہوں جانے کس بات پہ رنجور ہیں لوگ قید ہیں ذہن کے زنداں میں سبھی دل تک آتے نہیں‘ مجبور ہیں لوگ آگ مقصد کی دبی ہو جن میں خاک ہو کر بھی وہ پر نور ہیں لوگ پیار معمور نہ ہو آپس میں شاید اِس امر پہ مامور ہیں لوگ ہو کے مشہور تو لوگوں میں نہ بھول بھول جانے میں بھی مشہور ہیں لوگ کیونکر اِفہام کروں اِن سے منیبؔ ابھی تفہیم سے معذور ہیں لوگ

جی کر دیکھو

آنسو جو بہاتے ہو‘ وہ پی کر دیکھو نالاں ہو‘ کبھی ہونٹ بھی سی کر دیکھو میں نے کہا ’’مر جاؤں گا‘‘ ہنس کر بولا مر جانا تو آسان ہے‘ جی کر دیکھو