| تو گلشنِ فنا میں ہے آباد یاد رکھ |
| ہر ہر روش ہے تاک میں صیاد یاد رکھ |
|
| آیا ہے دور جس میں ہنرور ہیں کام یاب |
| بے کار جائیں گی تری اسناد یاد رکھ |
|
| ملحد وہی نہیں جو نہ مانے خدا کی ذات |
| خود کو نہ ماننا بھی ہے الحاد یاد رکھ |
|
| حاضر تو کر دلیل مددگارِ حق ہے تو |
| آئے گی آپ غیب سے امداد یاد رکھ |
|
| ظلمت جہاں ہے آج وہاں روشنی ہے کل |
| ہے یہ جہاں مرکبِ اضداد یاد رکھ |
|
| تیشے کو اپنے شوق کے ہرچند تھام لے |
| شیریں نہیں مشقتِ فرہاد یاد رکھ |
|
| تن پروری کی فکر میں گھلتا ہے کس لیے؟ |
| مٹی تلے ہی گھلتے ہیں اجساد یاد رکھ |
|
| نشوونماے روح کی مہلت ہے زندگی |
| خاکی نہاد جسم کی میعاد یاد رکھ |
|
| دل میں توہمات کی دیوار مت اٹھا |
| بیٹھے گی اِس مکان کی بنیاد یاد رکھ |
|
| فکر و عمل کی طرز چن اپنے لیے جدید |
| فرسودہ حال ہے رہِ اجداد یاد رکھ |
|
| چھوٹا بھی کوئی کام ہو جلدی تمام کر |
| سب سے عظیم وقت ہے جلاد یاد رکھ |
|
| لگتا ہے زنگ چھوڑ نہ لانا بہ روے کار |
| ہے عزم تیرا صورتِ فولاد یاد رکھ |
|
| موجد تو خود ہے اپنے مقدر کا بے خبر |
| تیرا نصیب ہے تری ایجاد یاد رکھ |
|
| مت سن جو ناقدین کریں نقد و اِنتقاد |
| تو آپ اپنے فن کا ہے نقاد یاد رکھ |
|
| پانی لگا عمل کا اراضی کو چاہ کی |
| کھاتا ہے پھل جو ڈالتا ہے کھاد یاد رکھ |
|
| باقی ہے کتنی عمر یہی سو پچاس برس |
| گھٹتی ہی جا رہی ہے یہ تعداد یاد رکھ |
|
| گر اِس گھڑی میں تو نہیں دل شاد ہم نشیں |
| پھر عمر بھر رہے گا تو ناشاد یاد رکھ |