اشاعتیں

اکتوبر, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دن رات کا افسانہ تو آنکھوں میں سمٹ جائے

دن رات کا افسانہ تو آنکھوں میں سمٹ جائے پڑھنے میں ترا چہرہ کہیں عمر نہ کٹ جائے کچھ ہاتھ سرِ روزنِ زنداں تو اُٹھے ہیں شاید مری تقدیر کا پانسا بھی پلٹ جائے فاتؔح چلے آتے ہیں سرِ بزمِ سخن گوئی کم فہم کو لازم ہے کہ وہ آگے سے ہٹ جائے