اشاعتیں

نومبر, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

احسان مانتے ہیں نہ آداب جانتے ہیں

احسان مانتے ہیں نہ آداب جانتے ہیں اب بندے اپنے آپ کو ہی صاب جانتے ہیں تم بادشہ ہو حسن کے‘ ہم عشق کے شہنشہ دونوں ہی اپنے آپ کو نواب جانتے ہیں تم زندگی میں دیکھتے ہو خواب سو طرح کے پر ہم تو زندگی کو ہی اِک خواب جانتے ہیں پانچوں حواس کھوئے گئے جیسے پانچ دریا سو اپنے تن کو صوبۂ پنجاب جانتے ہیں ہم نیلے آسمان کے پنجرے میں قید پنچھی اپنے پروں میں سب پرِ سرخاب جانتے ہیں کم فائدے کو جانتے نقصان تم ہو لیکن نقصان کم ہو‘ اِس کو بھی ہم لابھ جانتے ہیں یوں تو وسیع حلقہ ہمیں جانتا ہے لیکن گہرائی میں منیبؔ کچھ احباب جانتے ہیں

میں تو کروں گا ویسا ہی

میں تو کروں گا ویسا ہی جیسا اچھا لگتا ہے رہنے دو کمرہ خالی ایسا اچھا لگتا ہے بیتا وقت برا بھی ہو کیسا اچھا لگتا ہے اب تو فقیروں کو صاحب پیسا اچھا لگتا ہے مے کش کو انگور بھی کچھ مے سا اچھا لگتا ہے جیسا بھی ہو حال منیبؔ ویسا اچھا لگتا ہے منیب احمد 24 نومبر 2018 لاہور

دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور

دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور کچھ اور ہی کہتے ہیں وہ جب کہتے ہیں کچھ اور اِتنا ہی تو کہتے ہیں کہ تو دل کی سنا کر اے جان مری ہم تجھے کب کہتے ہیں کچھ اور اندر سے تو کیا ٹکڑوں میں دو ٹوٹ گیا ہے آنکھیں تری کچھ کہتی ہیں لب کہتے ہیں کچھ اور ہر روز تو کہتا ہے کہ ہوں آج بہت خوش انداز یہ اطوار یہ ڈھب کہتے ہیں کچھ اور کہتے ہیں سدا آپ منیبؔ اوروں کو اچھا پر آپ کے بارے میں تو سب کہتے ہیں کچھ اور منیب احمد 21 نومبر 2018 لاہور

حالات ہو گئے ہیں کتنے عجیب صاحب

حالات ہو گئے ہیں کتنے عجیب صاحب دھن کے امیر بھی ہیں من کے غریب صاحب عیسیٰ کا تذکرہ بھی ہم نے سنا تھا لیکن دیکھی یہاں سبھی کے سر پر صلیب صاحب مکے مدینے پہنچے یا کربلا گئے ہم لیکن کبھی نہ آئے اپنے قریب صاحب اپنے نصیب پر جو خوش ہے بقولِ واصفؔ وہ آدمی یقیناً ہے خوش نصیب صاحب سر پر ہے سبز پگڑی‘ باتیں رٹی رٹائی توتا ہی لگ رہے ہیں بالکل خطیب صاحب کس کو حبیب کہیے؟ کس کو رقیب کہیے؟ ہم کو تو ایک سے ہیں دونوں منیبؔ صاحب

گرتے پڑتے ہیں چلتے جاتے ہیں

گرتے پڑتے ہیں‘ چلتے جاتے ہیں تن بدن سے نکلتے جاتے ہیں جلتے جاتے ہیں بتیاں بن کر موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں سنگ بن کر ندی میں ٹھہرے تھے موج بن کر اچھلتے جاتے ہیں چڑھتے جاتے ہیں زندگی کا پہاڑ ساتھ کے ساتھ ڈھلتے جاتے ہیں پانی دیتے ہیں پھول گل کے لیے ساتھ کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں خاک کو منھ بھی کیا دکھائیں گے خاک ہی منھ پہ ملتے جاتے ہیں

دل میں چنگاریاں نہیں ملتیں

دل میں چنگاریاں نہیں ملتیں آنکھ میں بجلیاں نہیں ملتیں حالِ دل اب بھی لوگ لکھتے ہیں خوں چکاں انگلیاں نہیں ملتیں گھر ہوا دار مل تو جاتے ہیں پر کھلی کھڑکیاں نہیں ملتیں خوبیوں پر اگر نظر رکھو پھر کہیں خامیاں نہیں ملتیں وہ نہیں کامیابیاں پاتے جن کو ناکامیاں نہیں ملتیں وہ نہیں ساتھ ساتھ چل سکتے جن کی دل چسپیاں نہیں ملتیں مشکلیں اُن کو سہل لگتی ہیں جن کو آسانیاں نہیں ملتیں دل کا دروازہ ہو گیا ہے بند گم شدہ چابیاں نہیں ملتیں قبر پر گھاس رہ گئی ہے منیبؔ پھول کی پتیاں نہیں ملتیں منیب احمد 15 نومبر 2018 لاہور