اشاعتیں

2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جو دل میں ہے زباں پہ نہیں لا رہے ہیں لوگ

جو دل میں ہے زباں پہ نہیں لا رہے ہیں لوگ شاید یہ دھوکا جان کے ہی کھا رہے ہیں لوگ اِس گلشنِ حیات میں افسوس بن کھلے عالم میں غنچگی ہی کے مرجھا رہے ہیں لوگ اپنی شناخت کھو کے تو ہو جاؤ سب سے تم انجانے یہ سجھاؤ دیے جا رہے ہیں لوگ منزل کا نام لے تو رہے ہیں بہ صد یقیں منزل کہاں پہ ہے نہیں بتلا رہے ہیں لوگ ہر چند چاہتے ہیں نہ جائیں الی القضاء اَن چاہے پر اُسی کی طرف جا رہے ہیں لوگ سمجھے ہوئے تو خود بھی نہیں ہیں مگر سبھی اک دوسرے کو خوب سا سمجھا رہے ہیں لوگ چلتے ہیں صد ہزار پہنچتا ہے ایک آدھ اُس ایک کو بھی راہ میں بھٹکا رہے ہیں لوگ

سانس کا بندھن چھوٹ گیا تو کیا ہو گا

سانس کا بندھن چھوٹ گیا تو کیا ہو گا یہ دھاگا بھی ٹوٹ گیا تو کیا ہو گا میں نے جس میں بھوک چھپا کر رکھی ہے وہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا تو کیا ہو گا اے لڑکی یہ تیرے شوق پرانے ہیں مل یہ نیا بھی سوٹ گیا تو کیا ہو گا اپنے پاس سوائے تن من کچھ بھی نہیں وقت یہ دھن بھی لوٹ گیا تو کیا ہو گا جھوٹے شعر بنانے والی نگری میں بن میرا سچ جھوٹ گیا تو کیا ہو گا میرے فن کی نا پختہ سی گلیوں کو وقت کا پہیہ کوٹ گیا تو کیا ہو گا کاش کوئی یہ سوچتا کہ تاجر انگریز ہندستاں کو لوٹ گیا تو کیا ہو گا لوگ بہت ناراض ہیں مجھ سے ’میم الف‘ وہ پیارا بھی روٹھ گیا تو کیا ہو گا

میرؔ و اقبالؔ ہو نہ غالبؔ ہو

میرؔ و اقبالؔ ہو نہ غالبؔ ہو تم الگ چیز میمؔ صاحب ہو خود کلامی ہی کرتے رہتے ہو کبھی ہم سے بھی تو مخاطب ہے سب میں رہتے ہو سب سے بیگانے کچھ بتاؤ تو کس کی جانب ہو؟ غمِ دنیا نہ فکر عقبیٰ کی تم مسلمان ہو کہ راہب ہو؟ ساتھی تیرے ساتھ سے ہم پہ ظاہر ہے ساتھ نبھانا اپنے بس کی بات نہیں ہے سادہ سی اِک زندگی کو اُلجھا لیا ہے سہج بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے دوسروں کے میں کام تو کرتا ہوں لیکن کام کرانا اپنے بس کی بات نہیں ہے پیڑوں کے پھل کھانے کی حسرت تو ہے پیڑ ہلانا اپنے بس کی بات نہیں ہے آج سے میں بس شعر لکھوں گا کاغذ پر ویڈیو بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے شاعری کر کے ذہن بہت تھک جاتا ہے ہل یہ چلانا اپنے بس کی بات نہیں ہے

رائٹ برین بمقابلہ لیفٹ برین

تصویر
میں تو شاعر ہوں اِس لیے اکثر میرا سیدھا دماغ چلتا ہے تو بہت منطقی ہے سو ہر وقت تیرا اُلٹا دماغ چلتا ہے

معنی بھر لینا

ظرف میں تم کو دے جاتا ہوں تم اُن میں پانی بھر لینا یعنی حرف میں دے جاتا ہوں تم اُن میں معنی بھر لینا

ہر اِک گام پر ہے نئی زندگی

نہ کر غم کہ کتنی گئی زندگی ہر اِک گام پر ہے نئی زندگی چپکتے ہیں اِس سے تو چھٹتے نہیں بڑی چپچپی ہے لئی زندگی کوئی اِس کو سمجھا نہیں آج تک خدا جانے کیا ہے بھئی زندگی نہ کچھ مرنے والوں کا غم کیجیے ہے اپریل موت اور مئی زندگی زمینِ غزل پر مکانات میؔم بناتے بناتے ڈھئی زندگی

میں اہم تھا ؍ یہی وہم تھا

تو سمجھتا ہے بہت تو اہم ہے بھول ہے تیری‘ یہ تیرا وہم ہے موت کا کیا سامنا کر پائے گا؟ جب گیا تو زندگی سے سہم ہے! ہڈّیوں کا ڈھیر ہی رہ جائے گا پہلواں! مانا تو کوہِ لحم ہے میری باتوں کو سمجھتے ہیں فہیم اُس قدر ہی جتنا اُن کا فہم ہے رونقِ بازارِ دنیا‘ سچ بتا! کیا ترے دل میں بھی گہما گہم ہے؟ عدل کا خواہاں نہیں ہوں ’میم الف‘ جس کا میں طالب ہوں‘ اُس کا رحم ہے