جو دل میں ہے زباں پہ نہیں لا رہے ہیں لوگ

جو دل میں ہے زباں پہ نہیں لا رہے ہیں لوگ
شاید یہ دھوکا جان کے ہی کھا رہے ہیں لوگ
اِس گلشنِ حیات میں افسوس بن کھلے
عالم میں غنچگی ہی کے مرجھا رہے ہیں لوگ
اپنی شناخت کھو کے تو ہو جاؤ سب سے تم
انجانے یہ سجھاؤ دیے جا رہے ہیں لوگ
منزل کا نام لے تو رہے ہیں بہ صد یقیں
منزل کہاں پہ ہے نہیں بتلا رہے ہیں لوگ
ہر چند چاہتے ہیں نہ جائیں الی القضاء
اَن چاہے پر اُسی کی طرف جا رہے ہیں لوگ
سمجھے ہوئے تو خود بھی نہیں ہیں مگر سبھی
اک دوسرے کو خوب سا سمجھا رہے ہیں لوگ
چلتے ہیں صد ہزار پہنچتا ہے ایک آدھ
اُس ایک کو بھی راہ میں بھٹکا رہے ہیں لوگ

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا