اشاعتیں

مارچ, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سوچ رہا ہوں

سوچ رہا ہوں سوچنے والا کون ہے مجھ میں؟ کیا میں ہوں؟ یا میرا بھیجا؟ میری آنتیں؟ میرا معدہ؟ میرا سینہ؟ میرے اعضا؟ اعضاے رئیسہ؟ دل اِک عضوِ رئیس ہے کیا؟ عضوِ رئیس فقیر ہے کیا؟ سوچ رہا ہوں سوچ کا محور سوچ سے لے کر سوچ تلک ہے اکمل زیدی میرے بھائی سوچ کو لے کر الجھ گئے ہیں پوچھ رہے ہیں سوچ اور خیال خیال اور سوچ سوچ اور دل دل اور سوچ اَنتر کیا ہے اِن تینوں میں؟ میں سوچیلا! میں پھرتیلا! جھٹ سے پہلے پہنچ گیا ہوں اُتّر دینے میں تو پنڈت گیانی ہوں نا میں تو گیانی دھیانی ہوں نا میں تو عالم فاضل ہوں نا میں تو فاضل عاقل ہوں نا لیکن سچ میں جاہل ہوں نا! سوچ رہا ہوں سوچ کے پیچھے سوچ آتی ہے سوچ کے آگے کیا آتا ہے؟ کیا ایسی منزل ہے کوئی جس پہ سب سوچیں رک جائیں یا سوچوں میں ہم کھو جائیں؟ لیکن ہم تو کھوئے ہوئے ہیں پہلے ہی سے جو کھویا ہو کیسے کھوئے؟  کہتے ہیں کہ بھٹکتا وہ ہے جس نے کہیں جانا ہوتا ہے ہم نے کہاں جانا ہے بھائی؟ بنشین مادر، بیٹھ ری مائی! سوچ رہا ہوں اُس لڑکی سے پیار جتا کر غلطی کی ہے اب وہ میرے پیچھے پڑی ہے وہ کہتی ہے بیاہ رچاؤ! مجھ کو اپنے گھر میں لاؤ بچے پالو! سوچ رہا ہوں اِتنے پیسے کہاں سے لاؤں

جیسا تو ویسا ہر ایک

نہ کوئی بد ہے‘ نہ کوئی نیک جیسا تو ویسا ہر ایک

تیری نیت بھی ہے کیا میرا ارادہ بھی ہے کیا

تیری نیت بھی ہے کیا میرا اِرادہ بھی ہے کیا اپنی قسمت میں تغافل سے زیادہ بھی ہے کیا کوئی رہ داں ہو خضر سا تو میں اُس سے پوچھوں وہ جو منزل پہ ملے گا سرِ جادہ بھی ہے کیا؟ سب کے ہاتھوں میں گدائی کا ہی کاسہ ہے منیبؔ دست بستہ بھی ہے کیا دست کشادہ بھی ہے کیا