اشاعتیں

2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ہے مزہ کھانے کا یارو بانٹ کے

چھانٹ کے رکھو‘ نہ رکھو گانٹھ کے ہے مزہ کھانے کا یارو بانٹ کے جو سمجھ جاتا ہے بچہ پیار سے اُس کو سمجھاتے نہیں ہیں ڈانٹ کے فلسفے میں ہم تو پڑتے ہی نہیں معتقد ہیگل کے ہیں نہ کانٹ کے اِس قدر سامان ردی ہے جمع کچھ الگ کر دیجیے نا چھانٹ کے طفل کو دلوا دیے جوتے نئے باپ نے پہنے پرانے گانٹھ کے کوچ کرنا ہی مقدر میں ہو جب کیا کریں یاری کسی سے گانٹھ کے میم الف تنہا ہی کرتے ہیں شکار سانٹھ وہ قائل نہیں ہیں گانٹھ کے

کہ لے کچھ تو بھی اے دلم کہ لے

کہ لے کچھ تو بھی اے دلم کہ لے شاید اِس طور ہی سے جی بہلے یا نہ کر شکوۂ علالتِ طبع یا یہ آفات یک جگر سہ لے یا تو اُس استری سے پیار نہ کر یا اکیلے ہی عمر بھر رہ لے نہ لگا قفلِ احتیاط بہت جو بھی آئے زبان پر کہ لے اب وہ دو چار بھی نہیں باقی جو کہ نہلوں پہ مارتے دہلے گر زمانے سے داد چاہتا ہے تو زمانے کے طعن بھی سہ لے تجھ کو میں روبروئے مہر کروں گر تو افشائے چاندنی سہ لے اِس سے پہلے کہ سازِ عمر ہو ختم جو بھی کہنا ہے ہم سخن کہ لے مثلِ عصفور باغِ ہستی میں یعنی کر تھوڑی دیر چہ چہ لے ایک عرصہ ہوا ہے ’میم الف‘ اب تو ہمراہِ دوستاں ٹہلے

ہمارا دہر کے لوگوں سے تال میل نہیں

تعلّقات کا کھیلیں گے اور کھیل نہیں ہمارا دہر کے لوگوں سے تال میل نہیں جو دیکھیے تو بدن ہی کی قید ہے اَصلی کہ تنگ اِس سے تو دنیا میں کوئی جیل نہیں اِس امتحاں گہِ ہستی میں نقلِ غیر نہ کر کہ سب ہیں پاس یہاں اور کوئی فیل نہیں وہ جس سے اُترے مرا یار‘ میرا پردیسی جہاز ایسا نہیں‘ آہ‘ ایسی ریل نہیں نجانے کون سا ایندھن جلا رہا ہے اِسے چراغِ تن میں ہمارے تو کوئی تیل نہیں

شاعری کرنا ہمارا شوق ہے

شاعری کرنا ہمارا شوق ہے شوق یہ اپنے گلے کا طوق ہے صحبتیں ویسی ہی کرتا ہے پسند جس کا جتنا ظرف جیسا ذوق ہے جو نہ کچھ کہنے پہ بھی دیتا ہو داد کیا کسی کا اِس طرح کا ذوق ہے؟ ہستی اپنی بھی سمجھ آ جائے گی پر ابھی اِدراک سے مافوق ہے حق اکیلا‘ ایک‘ تنہا‘ لاشریک اور باطل فوج‘ پلٹن‘ جوق ہے میم الف کے شعر کرتے ہیں پسند بھائی بہنیں جن کا اچھا ذوق ہے

تھکتے نہیں ہیں پیڑ کیوں مالی کھڑے کھڑے

تھکتے نہیں ہیں پیڑ کیوں مالی کھڑے کھڑے بستر پہ ہم تو تھک گئے دن بھر پڑے پڑے لے جائیں سوہنی کو جو دریا کے پار تک ایسے بھی کوئی تم نے کمھارو! گھڑے گھڑے؟ اے نرم خو! یہ کیسا سمایا ہے جی میں شوق ننھی سی اِن لوؤں میں یہ کانٹے بڑے بڑے ہر چند ڈھیلا ڈھالا بہت ہو گیا مزاج پر شعر اب بھی کہتا ہوں کیسے کڑے کڑے تو نے مرصع سازی جو کی، کی مرصع ساز ہم نے جو شاعری میں نگینے جڑے، جڑے چھوٹے سے اِس دماغ میں اے شاعرانِ شہر! آتے کہاں سے ہیں یہ مضامیں بڑے بڑے پرواز کر گئے قفسِ عنصری سے آہ جیتے بھی تا کجا یونہی تن میں گڑے گڑے باہر سے اُس نے صلح تو کر لی سماج سے پھر عمر بھر جو خود سے مہایدھ لڑے، لڑے اوّل بہار اُن کی خموشی سے چھا گئی پھر گفتگو سے جو گلِ معنی جھڑے، جھڑے

کرنی ہے تو کر لو ورنہ معاف کرو

کرنی ہے تو کر لو ورنہ معاف کرو میں تو نہیں کہتا کہ مجھ سے بات کرو اُس سے ہفتے دو ہفتے میں مل آؤ کس نے کہا ہے پابوسی دن رات کرو عامل بابا پہلے اپنا جن پکڑو بعد میں قابو اوروں کے جنات کرو ہمت ہے تو ہم سخنِ منصور بنو حوصلہ ہے تو پیرویِ سقراط کرو کس نے کیا ہے؟ کس پہ کیا ہے؟ ہوش نہ ہو کرنے ہوں تو ایسے احسانات کرو بات وہ کیا ہے جس میں ہو اندازِ غیر کرنی ہو تو اپنے ڈھب کی بات کرو آنسو دیکھ کے بھی تم ہنستے رہتے ہو کچھ تو ہماری توقیرِ جذبات کرو

لازم تعلّقاتِ جہاں میں خشوع ہے

لازم تعلّقاتِ جہاں میں خشوع ہے ملنا نہیں کہ مل کے بچھڑنا شروع ہے