کہ لے کچھ تو بھی اے دلم کہ لے
کہ لے کچھ تو بھی اے دلم کہ لے |
شاید اِس طور ہی سے جی بہلے |
یا نہ کر شکوۂ علالتِ طبع |
یا یہ آفات یک جگر سہ لے |
یا تو اُس استری سے پیار نہ کر |
یا اکیلے ہی عمر بھر رہ لے |
نہ لگا قفلِ احتیاط بہت |
جو بھی آئے زبان پر کہ لے |
اب وہ دو چار بھی نہیں باقی |
جو کہ نہلوں پہ مارتے دہلے |
گر زمانے سے داد چاہتا ہے |
تو زمانے کے طعن بھی سہ لے |
تجھ کو میں روبروئے مہر کروں |
گر تو افشائے چاندنی سہ لے |
اِس سے پہلے کہ سازِ عمر ہو ختم |
جو بھی کہنا ہے ہم سخن کہ لے |
مثلِ عصفور باغِ ہستی میں |
یعنی کر تھوڑی دیر چہ چہ لے |
ایک عرصہ ہوا ہے ’میم الف‘ |
اب تو ہمراہِ دوستاں ٹہلے |