تھکتے نہیں ہیں پیڑ کیوں مالی کھڑے کھڑے

تھکتے نہیں ہیں پیڑ کیوں مالی کھڑے کھڑے
بستر پہ ہم تو تھک گئے دن بھر پڑے پڑے
لے جائیں سوہنی کو جو دریا کے پار تک
ایسے بھی کوئی تم نے کمھارو! گھڑے گھڑے؟
اے نرم خو! یہ کیسا سمایا ہے جی میں شوق
ننھی سی اِن لوؤں میں یہ کانٹے بڑے بڑے
ہر چند ڈھیلا ڈھالا بہت ہو گیا مزاج
پر شعر اب بھی کہتا ہوں کیسے کڑے کڑے
تو نے مرصع سازی جو کی، کی مرصع ساز
ہم نے جو شاعری میں نگینے جڑے، جڑے
چھوٹے سے اِس دماغ میں اے شاعرانِ شہر!
آتے کہاں سے ہیں یہ مضامیں بڑے بڑے
پرواز کر گئے قفسِ عنصری سے آہ
جیتے بھی تا کجا یونہی تن میں گڑے گڑے
باہر سے اُس نے صلح تو کر لی سماج سے
پھر عمر بھر جو خود سے مہایدھ لڑے، لڑے
اوّل بہار اُن کی خموشی سے چھا گئی
پھر گفتگو سے جو گلِ معنی جھڑے، جھڑے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا