ہمارا دہر کے لوگوں سے تال میل نہیں

تعلّقات کا کھیلیں گے اور کھیل نہیں
ہمارا دہر کے لوگوں سے تال میل نہیں
جو دیکھیے تو بدن ہی کی قید ہے اَصلی
کہ تنگ اِس سے تو دنیا میں کوئی جیل نہیں
اِس امتحاں گہِ ہستی میں نقلِ غیر نہ کر
کہ سب ہیں پاس یہاں اور کوئی فیل نہیں
وہ جس سے اُترے مرا یار‘ میرا پردیسی
جہاز ایسا نہیں‘ آہ‘ ایسی ریل نہیں
نجانے کون سا ایندھن جلا رہا ہے اِسے
چراغِ تن میں ہمارے تو کوئی تیل نہیں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا