سانس کا بندھن چھوٹ گیا تو کیا ہو گا

سانس کا بندھن چھوٹ گیا تو کیا ہو گا
یہ دھاگا بھی ٹوٹ گیا تو کیا ہو گا
میں نے جس میں بھوک چھپا کر رکھی ہے
وہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا تو کیا ہو گا
اے لڑکی یہ تیرے شوق پرانے ہیں
مل یہ نیا بھی سوٹ گیا تو کیا ہو گا
اپنے پاس سوائے تن من کچھ بھی نہیں
وقت یہ دھن بھی لوٹ گیا تو کیا ہو گا
جھوٹے شعر بنانے والی نگری میں
بن میرا سچ جھوٹ گیا تو کیا ہو گا
میرے فن کی نا پختہ سی گلیوں کو
وقت کا پہیہ کوٹ گیا تو کیا ہو گا
کاش کوئی یہ سوچتا کہ تاجر انگریز
ہندستاں کو لوٹ گیا تو کیا ہو گا
لوگ بہت ناراض ہیں مجھ سے ’میم الف‘
وہ پیارا بھی روٹھ گیا تو کیا ہو گا

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا