تم جو بیمار بنے بیٹھے ہو

تم جو بیمار بنے بیٹھے ہو
کیوں اداکار بنے بیٹھے ہو
تم میں تھی قدرتِ عیسیٰ نفسی
تمھی ناچار بنے بیٹھے ہو
تم تھے نقاشِ مقدر اپنے
نقشِ دیوار بنے بیٹھے ہو
جوہرِ ذات بھی رکھ کر نادر
کتنے نادار بنے بیٹھے ہو
خود کو کہلا کے خدا کا نائب
بتِ پندار بنے بیٹھے ہو
سرد دل سرد بدن سرد نگاہ
گرم گفتار بنے بیٹھے ہو
شک کی دیوار اٹھا کر دل میں
خاطر آزار بنے بیٹھے ہو
شب پرستوں کی مجالس میں منیبؔ
شمع بردار بنے بیٹھے ہو

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا