ساتھ رہتے ہیں مگر دور ہیں لوگ

ساتھ رہتے ہیں مگر دور ہیں لوگ
کس قدر شہر کے مغرور ہیں لوگ
سب کی آنکھوں میں نمی دیکھتا ہوں
جانے کس بات پہ رنجور ہیں لوگ
قید ہیں ذہن کے زنداں میں سبھی
دل تک آتے نہیں‘ مجبور ہیں لوگ
آگ مقصد کی دبی ہو جن میں
خاک ہو کر بھی وہ پر نور ہیں لوگ
پیار معمور نہ ہو آپس میں
شاید اِس امر پہ مامور ہیں لوگ
ہو کے مشہور تو لوگوں میں نہ بھول
بھول جانے میں بھی مشہور ہیں لوگ
کیونکر اِفہام کروں اِن سے منیبؔ
ابھی تفہیم سے معذور ہیں لوگ

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا