میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں
میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں |
یہی وہ عذابِ عظیم ہے کوئی بڑھ کے جس سے سزا نہیں |
اے مذاقِ شعر برا کیا کہ لگائی کارِ عبث کی لت |
کوئی اِس سے کام بنا نہیں کوئی اور کام ہوا نہیں |
وہ تمام لمحے جو بے غرض طلبِ ہنر میں لگا دیے |
یہ بتا رہے ہیں دمِ وداع کوئی مجھ سے ناداں بڑا نہیں |
مرے حرف حرف میں رنگ تھا مرے شعر شعر میں نقش تھا |
جو کمی رہی تو یہی رہی کوئی صادقین ملا نہیں |
یوں چرا لیا مرے حسن کو متشاعروں نے فریب سے |
مرا آئینہ بھی خفا ہوا مجھے ناز خود پہ رہا نہیں |
جو سنا سنا جو کہا کہا جو ہوا ہوا جو کیا کیا |
جو بنے بنے جو ملے ملے کیا بجا بجا کیا بجا نہیں |
میں حیات مانگوں قضا ملے جو ممات چاہوں ملے دوام |
رہا اتضاد مرے لیے میں نے ہاں کہی وہ سنا نہیں |
میں چلا گیا تو بہت ہوئے مرے مدح خواں مرے قدرداں |
ہے یہ قاعدہ مرے شہر کا جو مرا نہیں سو جچا نہیں |
یہ حدیثِ دل یہ حدیثِ دل میں کسے کہوں میں کسے کہوں |
مرے پاس رک مرے پاس رک کوئی میرے پاس رکا نہیں |
کھلا اُس پہ جب مرے دل کا حال بہت دور مجھ سے چلا گیا |
وہ بھی ایک قطرۂ اشک ہے جسے فکرِ چشم ذرا نہیں |
اے رہینِ پیشۂ عاشقی وہ غزل سنا جسے آج تک |
کسی لب کی گدی ملی نہیں کسی دل کا تخت ملا نہیں |
وہ مقیمِ خانۂ دل ترا وہی فاتؔحِ عدم آشنا |
ہوا عرصہ جاں سے گزر گیا تجھے آج بھی یہ پتا نہیں |