چمن میں گرچہ گل و لالہ کی کمی ہے بہت
چمن میں گرچہ گل و لالہ کی کمی ہے بہت |
اُسے جو دیکھنا چاہیں اُنھیں یہی ہے بہت |
خزاں کا ڈر ہے کہ گل چیں کا ہے بتا بلبل |
کلی کلی کے لیے تجھ کو بے کلی ہے بہت |
گلے ملے ہیں ملائے ہیں ہاتھ آپس میں |
مگر ہے یوں کہ ہر اک شخص اجنبی ہے بہت |
وہ شعلہ رخ ہے مری چشم کے دریچوں میں |
ابھی دیے نہ جلاؤ کہ روشنی ہے بہت |
یہی بہت ہے اگر مرگ بے کراں ہو منیبؔ |
کہ زندگی تو ہماری نپی تلی ہے بہت |