عالم حوادث کا اعتبار مجبوری

عالمِ حوادث کا اعتبار مجبوری
ورنہ کس سے مخفی ہے آج قرب کل دوری
زہر کو دوا سمجھا اور دوا کو مجبوری
کتنی خوش گمانی میں جان سے ہوئی دوری
دیکھیے اگر پھیلے تو لپیٹ لے کیا کیا
اب تلک تو سمٹی ہے دل میں داستاں پوری
آپ اور میرا غم جاننے سے ہیں قاصر
خوب ہم سمجھتے ہیں مدعاے معذوری
دل بھی تھک گیا فاتحؔ اور پاے خستہ بھی
کب تلک کیے جاتے روز و شب کی مزدوری

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا