وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی
وسعتِ تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی |
جتنی ہم سمجھے تھے غم میں اُتنی گہرائی نہ تھی |
آنکھ میری بھی اگرچہ کم تماشائی نہ تھی |
کچھ بیاں کرنے کو لیکن تابِ گویائی نہ تھی |
چارہ گر مانا دواے زخمِ تنہائی نہ تھی |
دیکھ لینے میں مریضوں کو تو رسوائی نہ تھی |
اک ہمارا دل تھا جس کے پاس دانائی نہ تھی |
سیلِ غم تھا اور خوے بادہ پیمائی نہ تھی |
وائے مایوسی براے دیدہ ہاے موسوی |
ذوقِ نظارہ تھا لیکن کوئی بینائی نہ تھی |
حلف پھر اُس نے اُٹھایا داد رس ہونے کا حیف |
جس کے ایوانوں میں فاتحؔ میری شنوائی نہ تھی |