ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا

ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا
اور اپنے آپ میں ڈوبا ہوا

ہو گئی تقدیر آخر کامیاب
اپنا ہر ناکام منصوبا ہوا

تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل
میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا

جب ہوئی ہم کو طلب تیری ہوئی
جب ہوا تب تو ہی مطلوبا ہوا

اِس طرح سے ہو گیا تن خشک تر
جس طرح پنجاب کا صوبا ہوا

میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا
میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا

ہر نگر اپنے لیے جنت ہوا
ہر شجر اپنے لیے طوبا ہوا

جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر
آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا

میم ہے کوئی نہ کوئی ہے الف
اِس تخلص سے بھی ہوں اوبا ہوا

منیب احمد 18 فروری 2022 لاہور

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا عرصۂ نادانی تھا

اپنے بس کی بات نہیں ہے