ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا
ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا |
اور اپنے آپ میں ڈوبا ہوا |
ہو گئی تقدیر آخر کامیاب |
اپنا ہر ناکام منصوبا ہوا |
تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل |
میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا |
جب ہوئی ہم کو طلب تیری ہوئی |
جب ہوا تب تو ہی مطلوبا ہوا |
اِس طرح سے ہو گیا تن خشک تر |
جس طرح پنجاب کا صوبا ہوا |
میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا |
میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا |
ہر نگر اپنے لیے جنت ہوا |
ہر شجر اپنے لیے طوبا ہوا |
جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر |
آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا |
میم ہے کوئی نہ کوئی ہے الف |
اِس تخلص سے بھی ہوں اوبا ہوا |