آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے

آنکھوں پہ بٹھانا مرا دستور نہیں ہے
یوں ملنا ملانا مرا دستور نہیں ہے
چپ چاپ اُسے دیکھتا ہوں غیر کے ہم راہ
باتوں کو بڑھانا مرا دستور نہیں ہے
پھرتا ہے پشیمان وہ خود روٹھ کر اب کے
ہر بار منانا مرا دستور نہیں ہے
مجبور نہ کر مجھ کو ترے دیس کو چھوڑوں
پھر لوٹ کے آنا مرا دستور نہیں ہے
سننے کا بہت شوق ہے اُن کو مرے ارمان
پر خواب سنانا مرا دستور نہیں ہے
ہو گا کہ یہ تکلیف دہی تیری نہج ہو
اشکوں کا بہانا مرا دستور نہیں ہے
مت ڈوبتی کشتی سے مجھے دیکھ مرے دل
امید دلانا مرا دستور نہیں ہے
مشتاق کوئی چارہ نوازی کا ہو فاتحؔ
احسان اٹھانا مرا دستور نہیں ہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا