ہزار خار سہی پاے جستجو کے لیے
کسے فراغ پریشانیِ عدو کے لیے |
بہت ہے حلقۂ احباب ہاؤ ہو کے لیے |
حسد سے مانگتی پھرتی ہے چشمِ رو بہ فرار |
شکستگی تزکِ حسنِ خوب رو کے لیے |
ز شہرِ سنگ پرستاں ہوں داد خواہِ جنوں |
شکستِ شیشۂ پندارِ آبرو کے لیے |
سخن طرازیِ فاتحؔ ہے پاسِ اہلِ ہنر |
مقامِ نقد نہیں خوے عیب جو کے لیے |
(ق)
اُڑی جو دشت میں بادِ خزاں بھبوکے لیے |
تو پہلے بوسے مری چشمِ بے وضو کے لیے |
کہا یہ میں نے کہ مت چھیڑ فکرمندِ بہار! |
کہ ہم بھی بیٹھے ہیں کچھ داغ آرزو کے لیے |
ذرا متابعِ جوشِ جنوں تو ہوں کہ چلیں |
ہزار خار سہی پاے جستجو کے لیے |