روزنِ حسرتِ یار بجھا ہے

روزنِ حسرتِ یار بجھا ہے دل کے دریچے موڑ چکے
جام و سبو بے کار پڑے ہیں ساغر و مینا توڑ چکے
فکر و تأمل ہی سے علاقہ شعر و سخن کی بابت تھا
سو یہ زمامِ کار بھی آخر خواہی نخواہی چھوڑ چکے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مست چاند

اِک بار ترے دیکھنے کی چاہ تھی ہم کو

ایک صبح دس بجے