ناز برداریوں میں کچھ بھی نہیں
ناز برداریوں میں کچھ بھی نہیں |
دوست! اِن یاریوں میں کچھ بھی نہیں |
تو ہے گر رمزِ دل سے نا واقف |
تیری دل داریوں میں کچھ بھی نہیں |
اور ہی کوئی منتظم ہے یہاں |
تیری تیاریوں میں کچھ بھی نہیں |
گرد ہی گرد ہے کتابوں کی |
اور الماریوں میں کچھ بھی نہیں |
مرد ہونے کی آرزو کے سوا |
اور اب ناریوں میں کچھ بھی نہیں |
ایک مہلت ہے تن درستی کی |
ورنہ بیماریوں میں کچھ بھی نہیں |
عالمِ غیب اگر نہیں ہے الفؔ |
عیب سنساریوں میں کچھ بھی نہیں |