جس پہ آغاز کی تہمت ہے

جس پہ آغاز کی تہمت ہے، وہ انجام ہی ہے
صبح بھی صبح کے جیسی ہے مگر شام ہی ہے
کام یابی نے سدا مجھ کو کیا ہے بے چین
گرچہ ناکام ہوں لیکن مجھے آرام ہی ہے
مجھ کو لگتا ہے کوئی چیز نہیں ہے موجود
جس کو موجود سمجھتے ہیں فقط نام ہی ہے
کشف سے کم نہیں میں جانتا اپنی باتیں
کوئی پوچھے تو میں کہتا ہوں کہ اِلہام ہی ہے
چوک جائیں نہ مجھے دیکھ کے کیوں لوگ منیبؔ
میرا حلیہ بھی تو کچھ خاص نہیں، عام ہی ہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مست چاند

اِک بار ترے دیکھنے کی چاہ تھی ہم کو

ایک صبح دس بجے