عدم سمونے میں لگ گیا ہے

عدم سمونے میں لگ گیا ہے
وجود کھونے میں لگ گیا ہے
جو ہے‘ نہ ہونے سا لگ رہا ہے
نہ ہے جو‘ ہونے میں لگ گیا ہے
وہ ناخدا ہوں جو اپنی کشتی
کو خود ڈبونے میں لگ گیا ہے
ابھی وہ ’میں‘ تک نہیں گیا تھا
جو ’ہم‘ کو ڈھونے میں لگ گیا ہے
منیبؔ مرکز پہ لوٹتے ہی
یہ کون کونے میں لگ گیا ہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا

آشناے غم پایا رازدانِ دل پایا